امریکی الیکشن و حالیہ عالمی واقعات اور ممکنہ اثرات – میراث زروانی

0
123

امریکہ کو اس کی بعض کمزوریوں کے باوجود آج بھی دنیا کی واحد سپرپاور اور اجارہ دار سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا محافظ اور لیڈر قرار دیا جاتا ہے، اس کے اسی بین الاقوامی حاکمانہ واجارہ دارانہ کردار کے باعث ہی امریکہ کے داخلی سیاسی ومعاشی حالات کے تغیر وتبدل اور کسی بھی بحران پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہوتی ہے، خاص طور پر امریکی صدارتی انتخابات میں پوری دنیا اور خصوصاً امریکہ کے اتحادیوں اور حریفوں کی دلچسپی کئی گنا بڑھ جاتی ہے، جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر صدارتی الیکشن کی مہم میں صرف امریکی سیاسی ومالیاتی ادارے و قوتیں ہی سرگرم نہیں ہوتیں بلکہ امریکہ کے اتحادی اور حریف بھی اپنے مفادات کے تناظر میں انتخابی مہم میں شریک ہوتے ہیں، اسی لئے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جہاں داخلی سیاسی، معاشی اور سماجی ایشوز اور مسائل کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا جاتا رہا ہے وہاں دنیا کے مختلف خطوں میں پائے جانے والے تنازعات سمیت عالمی سیاسی ومعاشی معاملات اور تعلقات کو بھی انتخابی پروگرام اور تقاریر و پروپیگنڈے میں نمایاں جگہ دی جاتی تھی، لیکن گذشتہ چند انتخابات میں امریکی صدارتی الیکشن کی مہم میں داخلی سیاسی ومعاشی اور سماجی ایشوز ومسائل شدت اور خارجی وعالمی ایشوز بتدریج مدھم اور اوجھل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں،جس کا حالیہ 3، نومبر 2020 ء کے صدارتی الیکشن میں بھرپور عکس دکھائی دیا، اس بارانتخابی مہم کا سب سے زیادہ زور داخلی سیاسی ومعاشی اور سماجی مسائل پر دیا گیا، لیکن تضادات و مسائل اور بحران کے داخلی ایشوز پر کافی حد تک محدود رہنا بھی امریکی انتخابات کے بین ا لاقوامی سیاست و معیشت پر گہرے اثرات کا حامل ہے۔
اس تناظر میں گذشتہ ماہ نومبر میں دنیا بھر کی سیاست و معیشت پر اثرانداز ہونے والے جن عالمی واقعات و حالات نے جنم لیا ان میں سرفہرست امریکی صدارتی الیکشن اور اس سے بھی بڑھ کر نتائج کے بعد پیدا ہونے والی انتظامی و سیاسی بحرانی کیفیت ہے، جسے امریکہ کا تاریخی ریاستی بحران بھی قرار دیا جا رہا ہے، جو طویل اور شدید ہونے کی صورت میں داخلی وخارجی سطح پر ایک نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے، اس کے علاوہ دوسرا اہم ترین واقعہ ویت نام میں طئے پانے والا وہ اقتصای تجارتی معاہدہ ہے، جسے دنیا کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ قرار دیا جارہا ہے، جس میں بحرالکاہل کے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی اقتصای و تجارتی تنظیم آسیان کی تمام رکن ریاستوں سمیت 15 ممالک شامل ہیں، اس معاہدے کا امریکہ حصہ نہیں ہے، جبکہ انڈیا نے شمولیت سے معذرت کرلی ہے، جبکہ دوسری طرف ایسی میڈیا اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ روس سوڈان میں اپنا نیول بیس یا بحری فوجی اڈہ قائم کرنے کی تگ ودو میں ہے، جس کا مقصد ریڈسی یا بحراحمر اور نہر سوئیز میں اپنی موجودگی اور نگرانی کو بڑھانا ہے، تاکہ خطے میں روسی مفادات کا حصول اور تحفظ یقینی بنایا جا سکے، اس کے علاوہ سعودی فرما نرواشاہ سلمان کی ترکی کے صدر طیب اردگان کے ساتھ برا ہ راست ٹیلی فونک رابطہ اور اس کے نتیجے میں ترک سعودی تعلقات میں جاری تناؤ میں کمی کے واقعات سمیت مختلف علاقائی بدلتے ہوئے حالات خطے اور دنیا کی سیاست ومعیشت میں ممکنہ تبدیلیوں اور اثرات کے حوالے سے اہم تصور کئے جارہے ہیں۔


ان تمام بین الاقوامی حالات وواقعات میں امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج اور اس کے بعد کی حالیہ غیر یقینی کی صورتحال ظاہر کرتی ہیکہ امریکہ کا نہ صرف داخلی بحران وانتشار بلکہ ڈیموکریٹک نو منتخب صدر جوبائیدن کی خارجہ پالیسی دنیا کے سیاسی ومعاشی منظر نامے کو بدلنے میں کلیدی کردارکے حامل ہوں گے، اگر اب تک کے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق ری پبلکن امیدوار صدر ٹرمپ ہارنے کے باوجود اپنا عہدہ صدارت چھوڑنے سے انکار پر بضدرہتے ہیں تو اس سے امریکہ ایک ایسے ریاستی، سیاسی اور سماجی انتشار میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے جو آخر کار امریکی کنفیڈریشن اور اس کی جغرافیائی یک جہتی کو ٹوٹ پھوٹ سے دوچار کر دے، ا گرچہ اب تک صدرٹرمپ نے باقاعدہ کسی احتجاجی تحریک کاآغاز نہیں کیا ہے اور وہ اپنا تمام انحصار عدالتی وقانونی چارہ جوئی اور اپنے ماتحت انتظامی مشینری کو استعمال کرنے پر کررہے ہیں، لیکن قانونی طور پر کمزور پوزیشن کے حامل ہونے کے باعث ناکامی کی صورت میں وہ کوئی بھی ایسا سیاسی وانتظامی اقدام کرسکتے ہیں جو پرامن اقتدار کی منتقلی کے عمل کو پر تشدد اور پر انتشار بنا دے،لیکن اس کے امریکہ کی داخلی استحکام یک جہتی اور عالمی سطح پر امریکی بالادستی پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کے پیش نظریہ امریقینی ہیکہ ایسی بحرانی کیفیت میں امریکہ کے فیصلہ ساز اور بشمول فوج طاقتور ادارے کسی بھی طور پر لا تعلق نہیں رہ سکیں گے اور ان کی طرف سے حالات کو معمول پر لانے کیلئے مداخلت ناگزیر ہوگی، جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سیکورٹی اداروں کی طرف سے زبردستی بھی وائٹ ہاؤس سے بیدخل کیا جا سکتا ہے، ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہیکہ صدر ٹرمپ اور اس کے حامی اس اقدام کو خاموشی سے برداشت کرتے ہوئے قبول کر لیں گے یا پھر احتجاج کو مزید شدید اور پر تشدد بنایا جائے گا، اس حوالے سے غالب امکان یہی ہیکہ بحران اور خلفشار بڑھنے کی صورت میں صدر ٹرمپ پسپائی اختیار کر لیں گے، کیونکہ امریکہ کی پس پردہ محافظ قوتیں یا ادارے صدر ٹرمپ کو ایسی خطرناک صورتحال پیدا کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیں گے جو امریکہ کے داخلی استحکام، سلامتی اور یک جہتی کیلئے جان لیوا نتائج کی حامل ہو، اس ضمن میں ٹرمپ کی پارٹی کے اندرون خانہ بھی جوبائیڈن کو پرامن طور پر اقتدار منتقلی کی حما یت بڑھ سکتی ہے، جس کے باعث ٹرمپ کیلئے اپنی موجودہ پوزیشن اور موقف کو قائم رکھنا انتہائی مشکل ہوگا، دوسری طرف بعض حلقوں کی جانب سے امریکہ صدارتی الیکشن میں جوبائیڈن کی کامیابی میں امریکی اسٹیلبشمنٹ کے کردار کو بھی ایک امکانی محرک کے طور پر دیکھا جارہا ہے، ان حلقوں کے مطابق صدر ٹرمپ کے دور حکمرانی میں امریکہ کے عالمی بالادست کردار اور اثرر سوخ میں آنے والی کمی اور بعض دیگر داخلی وخارجی اقدامات سے امریکی فیصلہ ساز ومقتدرہ طاقتور قوتیں مطمعین اور خوش نہیں تھیں، اور ان قوتوں کے ساتھ صدر ٹرمپ کی کشمکش کئی مقامات ومواقع پر دیکھنے کو ملی، ایسی صورت میں مختلف تجزیہ کار ومبصرین کافی عرصہ سے یہ قیاس آرائی کرتے آئے ہیں کہ صدر ٹرمپ دوسری مرتبہ الیکشن نہیں جیت پائیں گے، جس کی وجہ بدترین معاشی بحران وسماجی مسائل خاص طور پر کورونا کی وباء سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال ہی نہیں بنے گی بلکہ امریکہ کی اصل پس پردہ فیصلہ ساز مقتدرہ قوتیں بھی ٹرمپ کی ناکامی میں اپنا کردارادا کر سکتی ہیں، اسی لئے بعض لوگ پوسٹل بیلٹ کے تحت ڈالے گئے ووٹوں کی بھاری تعداد کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور اسے بعض طاقتوں کی منظم منصوبہ بندی کے تحت انتخابی نتائج بدلنے کی کوششوں سے تعبیر کیا جارہا ہے، ان لوگوں کے مطابق گذشتہ صدارتی انتخابات تک پوسٹل بیلٹ کے تحت ڈالئے گئے ووٹوں کی عمومی شرح 25 تا 30 فیصد کے درمیان رہی ہے لیکن اس بار یہ بعض ریاستوں میں حیران کن طور پر 50 فیصد سے بھی زائد ہے، ریاست پینسلوینیا میں ٹرمپ کو حاصل ووٹوں میں تقریباً 27 فیصد پوسٹل بیلٹ تھے جبکہ جوبائیڈن کو ملنے والے ووٹوں میں تقریباً 80 فیصد پوسٹل بیلٹس تھے، یہاں سے جوبائیڈن کو کامیابی ملی حالانکہ یہاں صدر ٹرمپ کی کامیابی کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا، لہذا اگر موجودہ صدارتی الیکشن کے نتائج کو اسیٹبلشمنٹ کے کسی کردار کا نتیجہ مان لیا جائے تو پھر آسانی سے یہ کہا جاسکتا ہیکہ صدر ٹرمپ جوجی میں آئے کرلیں انہیں عہدہ صدارت چھوڑنا ہوگا، چاہے وہ عزت اور روائتی پروٹوکول کے ساتھ چھوڑیں یا پھر انہیں بازو سے کھینچ کر وائٹ ہاؤس سے نکالا جائے۔ بہرحال عام امکان یہی ہیکہ جو بائیڈن تمام تر رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود اگلی چار سالہ مدت کیلئے امریکہ کا عہدہ صدارت سنبھال لیں گے، اور ان کا اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوگا، کیونکہ امریکہ کو داخلی اور خارجی محاذ پر جن اقتصادی وسیاسی چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنا کسی بھی طور آسان نہیں ہوگا، کیونکہ ان کے ظاہر کردہ سیاسی ایجنڈے سے صرف امریکہ کے حریف ہی نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے ساتھ قربتوں کی نئی بلندیوں کو چھونے والے بعض اتحادی بھی خوش نظر نہیں آتے، جس کا اظہار ان کی جانب سے جوبائیڈن کی کامیابی پر ماضی کے برعکس انہیں تاخیر سے اور سطحی ورسمی مبارکباد دینے کے عمل میں بھی کیا گیا، ان اتحادیوں میں اسرائیل اور بعض عرب حکمران شامل ہیں، خاص طور پر سعودی عرب کیلئے ان نتائج کو پریشان کن قرار دیا جارہا ہے، دوسری طرف امریکہ کے دو بڑے اور نمایاں حریفوں روس اور چین کی جانب سے بھی جوبائیڈن کا نئے امریکی صدر کے طور پر خوش دلی سے استقبال نہیں کیا گیا، جس کی وجہ جوبائیڈن کا روس اور چین کو امریکہ کے سب سے بڑے حریف کے طور پر دیکھنا ہے، چین نے تو جوبائیڈن کو تاخیر سے یہ کہتے ہوئے مبارکباد دی ہیکہ وہ امریکی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن روسی صدر نے تاحال جو بائیڈن کو صدر منتخب ہونے کی مبارکباد نہیں دی ہے، ان کا کہنا تھا کہ تمام قانونی کارروائی پوری ہونے کے بعد ہی وہ نئے امریکی صدر کو مبارکباد دیں گے، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے امریکہ روس تعلقات پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے تو جواب میں صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ تعلقات تو پہلے سے ہی خراب ہیں لہذا اس سے فرق نہیں پڑتا، روس اور چین کے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ بھی انتہائی تلخ تعلقات رہے ہیں تاہم ان کے حوالے سے کہا جاتا ہیکہ وہ صدر ٹرمپ کی اس لئے دوبارہ کامیابی چاہتے تھے کیونکہ ان کے اقدامات سے امریکہ کو داخلی اور خارجی سطح پر نقصان اور انہیں فائدہ حاصل ہو رہاتھا، جس میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث امریکہ کا عالمی کردار اور اثر رسوخ محدود ہونا بھی شامل ہے، جبکہ جوبائیڈن کایہ انتخابی نعرہ اور دعوی رہا ہیکہ وہ امریکہ کے عالمی کردار کو بحال کریں گے،ا نتخابی نتائج میں کامیابی کے بعد جو بائیڈن کا یو رپی اتحادی حکمرانوں سے پہلے ٹیلی فونک رابطے میں کہنا تھا کہ ہم یعنی امریکی گیم میں واپس آرہے ہیں، بائیڈن کے انہی عزم ارادوں کو روس اور چین اپنے بین ا لاقوامی مفادات اور بڑھتے ہوئے اثررسوخ کیلئے بڑا خطرہ اور رکاوٹ سمجھتے ہیں، اسی لئے جوبائیڈن کو عہدہ صدارت سنبھالنے سے قبل ہی خارجی محاذ پر روس اور چین کی طرف سے مخاصمت و مخالفت کا سامنا ہے، جو آنے والے دنوں میں امریکہ کی ان دونوں طاقتوں کیخلاف کشمکش اور ٹکراؤ میں مزید شدت کا باعث بنے گی، تاہم ایران کے ایشو پر ممکن ہیکہ کوئی سطحی اور عارضی تبدیلی آئے، لیکن ایران سے دوبارہ معاہدے کیلئے اب 2015 ء کی پوزیشن پر واپس جانا ممکن نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے جوبائیڈن کی ایران پالیسی دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی اور بداعتمادی کو مکمل طور ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی، کیونکہ ایران کے ساتھ امریکی ٹکراؤ میں ایٹمی تنازعہ واحد محرک نہیں ہے بلکہ اسرائیل و عرب امریکی اتحادیوں کے ایران کے ساتھ شدید دشمنی بھی ٹکراؤ کے محرکات میں کلیدی عنصر کے طور پر شامل ہے اور اب ایران کی چین کے ساتھ طویل المدتی اقتصادی و دفاعی پارٹنرشپ ایران امریکہ ٹکراؤ میں ایک اور اہم محرک بن کر سامنے آئی ہے، اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات میں زیادہ قربت اور مضبوطی کا امکان ہے، اور جو بعض رکاوٹیں تجارتی و ویزا پالیسیوں کی شکل میں صدر ٹرمپ کے دور میں پیدا ہوگئی تھیں، جو بائیڈن کے دور میں وہ ختم یا انتہائی کم ہوسکتی ہیں، لہذا جو بائیڈن کے دور میں بھی بھارت امریکہ کا انتہائی اہم اور قریبی اتحادی رہے گا اور اس کے چین کے ساتھ کسی بھی ٹکراؤ کی صورت میں جو بائیڈن ٹرمپ سے بڑھ کر بھارت کی پشت پناہی کرسکتا ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہیکہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء میں جوبائیڈن کے دور میں کوئی بڑی پالیسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے، جس کے باعث یہ واضح امکان پایا جاتا ہیکہ پاکستان کے بارے میں بھی امریکی رویہ گذشتہ سے پیوستہ رہ سکتا ہے، جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک جوبائیڈن کے دور میں بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں سامنے آنے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نام پر پاکستان پر امریکی دباؤ پہلے سے زیادہ بڑھ سکتا ہے جس میں افغان ایشو، ایٹمی پروگرام اور دھشتگردی اور سی پیک سمیت چین کے ساتھ اقتصادی واسٹریٹیجک پارٹنرشپ ودیگر مسائل بھی شامل ہیں، تاہم جوبائیڈن کی ظاہر کردہ پالیسیوں کے حوالے سے جو ممکنہ پیش منظر دکھائی دے رہا ہے اس کے ابھی کئی مزید پہلو اجاگر ہونا باقی ہیں،اسی لئے بعض معاملات پر ابہام بھی پایا جاتا ہے، جو اسی وقت دور ہوگا جب جوبائیڈن عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد دنیا کے کھیل کے میدان میں اتریں گے۔
امریکی انتخابات کے علاوہ دوسرا اہم ترین واقعہ چین، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا اور دیگر آسیان ممالک سمیت 15 ریاستوں کے مابین دنیا کا سب سے بڑا تجارتی واقتصادی علاقائی بلاک قائم ہونا ہے، جسے علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری آرسی پی کا نام دیا گیا ہے، اس معاہدہ پر ویت نام میں ویڈیو سربراہ کانفرنس میں باقاعدہ دستخط کئے گئے، یہ معاہدہ 8 سالہ طویل عرصہ پر مشتمل مزاکرات کے بعد عمل میں آیا ہے، جس کے تحت رکن ممالک باہمی تجارت اور اقتصادی لین دین بھاری محصولاتی و دیگر رکاوٹوں سے آزاد ہوکر کرسکیں گے، اس اتحاد کو دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک اس لئے قرار دیا جا رہا ہیکہ یہ دنیا کی مجموعی معیشت کے ایک تہائی حصے پر محیط ہے، ور نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی معیشت وتجارت پر بھی یہ بلاک اپنا گہرا اثررسوخ اور غلبہ رکھتا ہے اور آبادی کے لحاط سے یہ تقریباً 30 فیصد سے زائد ہے، قابل غور امریہ ہیکہ اس معاہدے میں جو بحرا لکائل کے ممالک پر مشتمل ہے امریکہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے، حالانکہ بحرا لکاہل میں تجارتی واقتصادی سرگرمیوں میں امریکہ یہاں جاپان ودیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہمیشہ حصہ لیتا رہا ہے، لیکن اس بار امریکہ کا گیم سے باہر رہنا یا رکھے جانا اہم سوال ضرور ہے،ا گرچہ اس معاہدے میں انڈیا بھی شامل نہیں ہے، لیکن انڈیا کا معاہدے سے باہر رہنا اس کی اپنی چوائس رہی ہے، حالانکہ چین سمیت معاہدے کے رکن ممالک بھارت جیسی خطے کی بڑی معیشت ومنڈی کو اس اقتصادی بلاک میں شامل کرنے کے دلی خواہش مند ہیں، جس کا اظہار انڈیا کے انکار کے باوجود اسے مبصر کا درجہ دینے میں بھی نظر آتا ہے، مگر امریکہ کے بارے میں عمومی اطلاعات یہی سامنے آئی ہیں کہ امریکہ کو شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا، جس کا ایک سبب فروری 2016 ء میں صدر اوبامہ کے دور میں امریکہ سمیت 12 ممالک پر مشتمل ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ ٹی ٹی پی کے نام سے ہونے والے تجارتی واقتصادی معاہدے کو صدر ٹرمپ کی جانب سے 2017 ء میں ختم کرنے کو بھی تصور کیا جاتا ہے، صدر ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکہ کی قومی معیشت وصنعت کیلئے انتہائی نقصان دہ قرار دیا تھا، اس لئے یہ بھی ممکن ہیکہ امریکہ نے خود ہی اس میں شمولیت کیلئے دلچسپی ظاہر نہ کی ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہیکہ امریکہ کے سابقہ کردار کے باعث پیدا ہونے والی بداعتمادی کے نتیجے میں امریکہ کو شعوری طور پر اس میں شامل کرنے کے قابل ہی نہ سمجھا گیا ہو، جبکہ اس کی ایک اور وجہ چین کا امریکہ مخالف کردار بھی قرار دیا جارہا ہے، اس سلسلے میں بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہیکہ چین بحرالکاہل سمیت دنیا کے تمام اہم ترین تجارتی و اقتصادی اور اسٹریٹیجک علاقوں میں اپنے اثر رسوخ اور غلبے کو بڑھنے کیلئے بھرپور کوشاں ہے، خاص طور پر وہ اہم اقتصادی مفادات کے حامل علاقے جواب تک امریکی غلبے میں رہے ہیں ان پر اپنے تسلط کیلئے چین ہر ممکن ذرائع عمل میں لارہا ہے، جبکہ بحرالکاہل تو چین کیلئے نہ صرف اقتصادی بلکہ اس کے دفاع وسلامتی کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے جہاں اب تک امریکہ کا غلبہ رہا ہے اور یہاں بڑی تعداد میں امریکی فوج بھی تعینات ہے، اور اس علاقے میں آئے روز امریکی بحری فوجی بیڑوں کی آمدوررفت وتعیناتی اور دیگر دفاعی سرگرمیوں کے ذریعے امریکہ چین کو دھمکاتا اور دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، امریکہ کی یہاں موجودگی دراصل خطے کے چین مخالف ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدوں وتعلقات کا نتیجہ ہے، ان میں زیادہ تر وہی ممالک شامل ہیں جو نئے تجارتی معاہدے میں چین کے ساتھ ہیں، لہذا چین کی یقینی طور پر یہ پہلی کوشش ہوگی کہ وہ اس خطے سے امریکہ کا عمل دخل مکمل ختم کرکے بلاشرکت غیرے اپنی بالادست حیثیت قائم کرے اور امریکہ سے لاحق خطرات سے محفوظ رہے، جس کیلئے تجارت و معیشت ایک ایسا راستہ ہے جو چین کو اپنے ان مقاصد کی تکمیل تک پہنچا سکتا ہے، کیونکہ اقتصادی مفادات ہی وہ بنیادی عنصر بن چکے ہیں جو متعلقہ ریاستوں کے بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسیوں کا تعین کررہے ہیں، لہذا جنوبی کوریا و جاپان سمیت امریکی اثررسوخ والے آسیان ممالک اورآسٹریلیا جیسے خطے کے اہم ترین امریکی اتحادی کا چین کے ساتھ اقتصادی وتجارتی شراکت داری میں آنا لازمی طور پر خطے میں امریکی غلبے کو کمزور اور چین کے اثررسوخ کو بڑھائے گا، اسی لئے یہ بھی کہا جارہا ہیکہ اس معاہدے کے بعد امریکہ کی عالمی بالا دستی کے سکڑنے یا محدود ہونے کی رفتار مزید تیز ہوگی لہذا بعض مبصرین کے مطابق یہ امرعین ممکن ہیکہ اس معاہدے میں امریکہ کی غیر موجودگی کی وجہ چین ہوسکتا ہے، تاہم اب تک اس معاہدے پر امریکہ کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔


اس معاہدے کے اثرات ونتائج کے حوالے سے مبصرین وتجزیہ کاروں کی مختلف آراء سامنے آرہی ہیں، جن میں یہ عمومی اتفاق پایا جاتا ہیکہ معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا، کیونکہ ممبر ممالک کے درمیان تجارتی محصولات میں بھاری کٹوتیوں کے باعث چینی بر آمدات میں اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کے ذریعے چین معاہدے میں شامل خطے کے ان اہم امریکی اتحادیوں میں اپنا اثررسوخ بڑھائے گا اور جنوبی بحرہ چین میں اس کیلئے آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں، اور یہاں پائی جانے والی چین کی معاہدے میں شامل ممالک کے ساتھ کشیدگی بھی کم ہو سکتی ہے، جس سے چین کی بحری تجارتی آمدورفت کو اس علاقے میں لاحق خطرات میں کمی آئے گی اور اس کا ناگزیر نتیجہ امریکہ کی ان کوششوں کو دھچکے کی صورت میں برآمد ہو گا جو خطے میں چین کا گھیراؤ کرنے کیلئے کی جارہی ہیں، کیونکہ یہاں اپنی دفاعی سرگرمیوں کیلئے امریکہ انہی چینی حریف ریاستوں پر انحصار کرتا ہے جو آج آرسی ای پی معاہدے میں چین کی تجارتی واقتصادی شراکت داربن چکی ہیں، جبکہ دوسری طرف امریکی قیادت میں قائم ہونے والے چین مخالف کو اڈاتحاد کو بھی اس سے نقصان پہنچنے کا امکان ہے، کیونکہ کواڈ کے دواہم ممالک جاپان اور آسٹریلیا نئے معاہدے میں شامل ہوگئے، اور باقی صرف انڈیا اور امریکہ رہ گئے ہیں، اگرچہ کواڈ اتحاد کے چار ملکی اقتصادی ودفاعی تعاون کے حوالے سے اب بھی قائم رہنے کا امکان ہے، کیونکہ بعض علاقائی وعالمی معاملات پر کواڈ اتحادیوں میں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے لیکن اس اتحاد کو چین کے جس گھیراؤ اور اس پر دباؤ کے جن مقاصد کیلئے یہ قائم کیا گیا ہے ان کے حصول میں شاید اب امریکہ اور بھارت کو کسی قدر مایوسی کا سامنا کرنا پڑے، البتہ اس تمام ممکنہ صورتحال میں سب کچھ ایک سیدھی لائن میں ہوتا ہوا نظر نہیں آتا بلکہ یہ سب انتہائی پیچیدہ، تصادم خیز اور پرانتشار ہوگا جس کا نتیجہ خطے اور دنیا میں مزید عدم استحکام اور نت نئے بحرانوں کی صورت میں برآمد ہوگا۔
اس کے علاوہ مشرق وسطی اور شمالی افریقی خطے میں آئے روز آنے والی تبدیلیاں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس میں عالمی طاقتوں کی مداخلت مزید تصادم آمیز منظر تشکیل دے رہی ہیں، جن میں روس کی طرف سے سوڈان میں بحری فوجی اڈے کے قیام کی اطلاعات قابل ذکر ہیں، ان میڈیا اطلاعات کے مطابق روس سوڈان کے ساتھ بحری فوجی اڈے کے حصول کا معاہدہ کرکے ریڈسی یا بحراحمر اور نہر سوئیز جیسے تجارتی واسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ترین خطے اور گذرگاہ پر اپنی نگرانی اور مداخلت بڑھانا چاہتا ہے تاکہ یہاں روسی مفادات کو دائمی تحفظ دیا جاسکے، اور خطے میں عالمی وعلاقائی طاقتوں کے درمیان جاری کشمکش، کشیدگی، صف بندی اور سیاسی واقتصادی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال میں روسی مفادات کو نظر انداز نہ کیا جاسکے، روس کی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور مداخلت یقینی طورپر خطے کے تصادم خیز حالات کو مزید انتشار کی طرف لے جائے گی، دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ سعودی عرب کی اطلاعات نے خطے میں ایک نیا سیاسی طوفان کھڑا کردیا ہے، ن اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم موساد کے سربراہ کے ہمراہ سعودی عرب کے نئے اقتصادی زون نیوم شہر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیؤ کے ساتھ کئی گھنٹے گزارنے اور بات چیت کے بعد واپس اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے اسرائیل پہنچ گئے، ان اطلاعات کی سعودی حکام نے تردیدکی ہے لیکن بعض اسرائیلی حکام تصدیق کر چکے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم سعودی عرب گئے ہیں، اس ملاقات کے بارے میں کہا جارہا ہیکہ امریکہ نے سعودی عرب پر یہ دباؤ بڑھایا ہیکہ وہ جلد ازجلد اسرائیل کو تسلیم کرے، جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایران کیخلاف مشترکہ فوجی کارروائی اور اشتراک عمل پر بھی بات چیت اور بعض امورطئے کیے گئے یہ مبنیہ ملاقات خطے میں جاری ٹکراؤ کو مزید بڑھا سکتی ہے، جس کا عکس اس ملاقات کے چندروز بعد ہی سعودی عرب میں واقع ایک بہت بڑے آئل ڈپوکو حوثی باغیوں کی طرف سے راکٹ حملوں کے ذریعے تباہ کرنے ااور یمن کے قریب سعودی آئل لے جانے والے مالٹا کے ایک بحری جہاز کو بارودی سرنگ دھماکے سے نقصان پہنچانے کے واقعات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جسے بعض حلقے اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کا ردعمل بھی قرار دے رہے ہیں، یہ صورتحال سعودی عرب کیلئے کسی بھی طرح سود مند نہیں ہے، اسی لئے شاید سعودی فرمانرواشاہ سلما ن نے ترک صدر طیب اردگان سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، جس سے کسی حد تک تلخیاں کم ہوئی ہیں، حالانکہ اس سے قبل سعودی عرب اپنے ہاں ترک مصنوعات کا بائیکاٹ کرچکا تھا جس سے ترکی کواربوں ڈالر کا نقصان پہنچ رہا تھا، لہذا کشیدگی میں کمی دونوں کی ضرورت ہے، لیکن وسیع تر منظر نامے اور دونوں کے خطے میں بعض اہم ترین متضاد مفادات کے باعث کشیدگی میں کمی عارضی ثابت ہوسکتی ہے۔
اس تمام ممکنہ پیش منظر میں پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان بڑھتا ہو اتنا ؤ کم ہونے کا امکان ظاہر نہیں کرتا، یواے ای کی جانب سے پاکستانیوں کیلئے ویزہ پابندیوں کی اطلاعات کے بعد یہ واضح ہوگیا ہیکہ ان عرب ممالک کا پاکستان سے دوستانہ ختم ہوکر اب باقاعدہ عداوت اور دشمنی میں بدل گیا ہے، یو اے ای کی طرف سے پاکستانیوں پر پابندی اور بھارتیوں کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھنے کے اقدام سے ظاہر ہوتا ہیکہ اب عرب اتحادی ہر اس قوت کی حمایت کر سکتے ہیں جو پاکستان مخالف ہے، اسی حوالے سے بعض ایسی خبریں بھی شنید ہیں کہ یو اے ای میں پاکستانیوں پر عائدہ کردہ پابندیوں میں وہاں مقیم بلوچ تارکین وطن کو چھوٹ دی جارہی ہے،اگر چہ ان اطلاعات کی اب تک باقاعدہ مصدقہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے تاہم پاکستانیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے سامنے آنے والے بعض واقعات میں بلوچ تارکین وطن سے دوسرے پاکستانی شہریوں کی نسبت بہتر سلوک کرنے کی خبریں سامنے آئی ہیں، اگر ایسی کوئی بھی عرب پالیسی تشکیل پاتی ہے تو یہ بلوچستان کے مسلے پر علاقائی سیاست میں ایک نئی تقسیم کی صورت میں ظاہر ہوگی، جو بعض حلقوں کے مطابق بلوچستان میں جاری آزادی پسند قوتوں کیلئے تقویت کا باعث ہوگی اور عرب ممالک میں بلوچ تارکین وطن کو عرب حکمرانوں کے دباؤ کا جو سامنا کرنا پڑتا تھا اس میں واضح کمی واقع ہوگی اور آنے والے دنوں میں یہ بھی ممکن ہیکہ یواے ای یاد دیگر عرب ممالک بلوچ جلاوطن سیاست اور رہنماوں وکارکنوں کے نئے مراکز بن کر ابھریں، اگرچہ یہ سب کھلے طور پر اور جلد ممکن نہ ہوسکے مگر ان امکانات کو موجودہ بدلتے ہوئے حالات میں خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بشکریہ، سنگر میڈیا

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں