اُٹھو کشمیرکے باسیو،آج ہی بدلو، نہیں تو غلامی مقدر بنے گی ۔ وسیم شاہ انقلابی

0
49

کہنے کو تو کشمیرپاکستانی قبضہ کی وجہ ترقی اور خوشحالی کے کئی منصوبے بنائے ہوئے ہیں مگر حقیقت میں کشمیرکی سرزمین اور اسکی عوام قابض ممالک کے ہاتھوں کئی داہائیوں سے صرف لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے۔قدرتی وسائل سے لیکر عوام کو پاکستان محض اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
یوں تو پاکستان نے کشمیر کو اپنی نو آبادی بنا لیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیرکی عوام کو نہ صرف اپنی تاریخ سے دور کر دیا گیا ہے بلکہ انکی طرز پیداوار،ثقافت اور ہنر سب کچھ ختم کر دیا گیاہے۔یہی غاصب کا سب سے بھیانک کھیل ہوتا ہے جہاں کسی قوم و ملک کو اپنا غلام بنانے کے لیے انکی تاریخ،شناخت،ہنر اور پہچان سے دور کر دیا جاتا ہے۔اگر دیکھا جائے توکشمیر میں غاصب قوت کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکی ہیں۔یہی وہ وار ہیں جنہوں نے کشمیریوں کواپنی آزادی اور شناخت کے لیے جدوجہد کرنے سے روک دیا ہے۔یہاں تک کہ اب کشمیر کی عوام اپنے حقوق سے بھی نا آشنا ہو چکی ہے۔کشمیر کے قدرتی وسائل پر غاصب کامکمل قبضہ ہے جس کو وہ کشمیر کی عوام کی خوشحالی اور ترقی پر استعمال کرنے کی بجائے اپنے اپنے علاقے کی خوشحالی کے لیے صرف کر رہے ہیں۔

کشمیر میں جو ڈیمز بنائے گئے اور ان سے اتنی بجلی پیدا کی جاتی ہے کہ کشمیر کا کوئی کونہ کبھی اندھیرے میں نہ ڈوب سکے۔ کشمیریوں کا شال بافی اور قالین بافی کا جو ہنر ہے اسکا دنیا میں کوئی ثانی نہیں،کشمیری دستکاریاں کشمیر کی پہچان رہی ہیں۔جنگلات سے مالا مال یہ علاقہ اپنی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔مگر صد افسوس کہ غاصب نے کشمیریوں کا یہ حق ان سے ہمیشہ چھینا اور انہیں انہی کے وسائل سے دور رکھ کر بے بسی اور مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔کشمیر کے خطے کو اس قدر پسماندہ کر دیا گیا کہ یہاں لوگ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسرے ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں تاکہ دو وقت کی روٹی حاصل کر سکیں۔نہ تعلیم کا کوئی موثر نظام ہے نہ صحت کا،لوگ سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔بجلی جو انکی ضرورت سے کئی گنا زیادہ پیدا کی جاتی ہے وہ،اسلام آباد، کراچی تک تو جاتی ہے مگر کشمیر کے اپنے علاقے تاریکی میں ڈوبے رہتے ہیں۔پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ڈیمز پہ ڈیمز تعمیر کیے جا رہے ہیں مگر اسکے باوجود بجلی کا نحران رہتا ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں یوں تو منگلا ڈیم میں پیدا کی جانے والی بجلی نام نہاد آزاد کشمیر کے استعمال سے کئی گنا زیادہ ہے مگر یہاں شہروں میں بجلی بارہ سے پندرہ گھنٹہ نہیں ہوتی اور دیہاتوں میں محض ایک دو گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔یاد رہے منگلا میں پیدا ہونے والی بجلی کراچی تک استعمال ہوتی ہے۔اور خیر سے پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں مزید دو نئے ڈیمز بنائے جا رہے ہیں جو کہ صرف اور صرف اس لیے بنائے جا رہے ہیں کہ پاکستان اپنے بجلی کے بحران پر قابو پا سکے۔بظاہر تو پاکستان اور بھارت کشمیر کے اندر اس طرح کے منصوبے اس لیے تیار کر رہا ہے کہ وہ کشمیر کو خوشحال کرئے گا مگرحقیقت میں پاکستان کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ کشمیر کے اندر اپنی حکمرانی کی جڑیں مضبوط کرسکے تاکہ کل وہ کشمیر پر اپنا حق جتا سکے اور وہاں کی عوام کو اپنا ماتحت بنائے رکھے۔کشمیری عوام کو یہ بات اب سمجھنا ہوگی کہ پچھلے ستر سالوں میں قابض نے کشمیری عوام کا ہر طرح سے استحصال کیا ہے،انہیں نہ صرف سیاسی،سماجی،معاشی اور ثقافتی بحران کا شکار بنایا بلکہ انہیں شعوری طور پر اس قدر پست رکھا کہ آج کشمیر کی عوام نہ اپنے حق سے واقف ہے اور نہ ہی اپنی تاریخ سے۔

کشمیر کے عوام کی پسماندگی کا سبب بس یہی ہے کہ غاصب قوت کو صرف کشمیر اور اسکے وسائل سے غرض رہی ہے جسے وہ شروع دن سے اپنے اپنے مفاد کے لیے لوٹ رہے ہیں،جس کے لیے انہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر کی عوام کوہر طرح کے حقائق سے دور رکھ کر انہیں ابہام کا شکار بنا کر ذہنی غلام بنائے ہوئے ہے تاکہ کشمیر کی عوام کبھی اس قابل ہی نہ ہو سکیں کہ اپنے حقوق کو پہچان سکیں اور غاصب سے اپنا حق واپس لے سکیں۔لہذا ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نام نہاد آزاد کشمیر کی عوام خود کو مزید استحصال اور غلامی سے بچائے اور مزید ڈیمز کی تعمیرسے حکومت کو روکے اور تب تک غاصب کے منصوبے عمل میں نہ لانے دے جب تک کشمیر میں بجلی کا بحران مکمل ختم نہیں ہو جاتا،جب تک یہاں کی سیاحت،جنگلات،اور وسائل سے حاصل ہونے والی رقم کو کشمیر کی خوشحالی اور ترقی کے لیے استعمال کرنے کا کوئی معائدہ نہیں ہو جاتا۔جب تک یہاں ہر جگہ سڑکیں نہ بنا لی جائیں،جب تک جگہ جگہ سکولز نہ ہوں،ہسپتال نہ ہوں،روزگار نہ ہوتب تک غاصب کے کسی جھانسے میں نہ آئے۔اب وقت ہے کہ اپنے حق کے لیے بولا جائے،لڑا جائے اور غاصب کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔یقین جانیے یہ صرف عوام کر سکتے ہیں،جس دن کشمیر کی عوام متحد ہو کر اپنے حق کے لیے کھڑی ہو گئی اس دن غاصب کے پاس سوائے اسکے کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ گھٹنے ٹیک دے۔عوام کمزور بنی ہے تبھی حکمران مضبوط بنے ہیں،جس دن عوام مضبوط ہو گئی حکمران خودبخود کمزور پڑ جایئں گے۔اور عوام صرف اسی صورت مضبوط ہوگی جب وہ اپنے اپنے ذاتی مفاد کو چھوڑ کر ساری عوام کے ساتھ ملکرہر ظلم و جبر اور استحصال کے خلاف کھڑے نہیں ہو جائیں گے۔کیونکہ یہی وقت ہے جب ہم اپنا حق حاصل کر سکتے ہیں اگرذراسی بھی دیر ہو گئی تو یہ غلامی ہی ہمارا آخری ٹھکانہ بنے گی اور ہمارے پاس ساری عمر محتاجی اور بے بسی کی زندگی گزارنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں