مقبوضہ بلوچستان: لاپتہ افرادکی بازیابی کے دعوؤں کی حقیقت نہیں،سمی بلوچ

0
44

سال 2009 کے وسط سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین بلوچ وزیر اعظم شہباز شریف کی اس یقین دہانی کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کا معاملہ متعلقہ حلقوں کے سامنے اٹھائیں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سمی دین بلوچ نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

ڈاکٹر دین محمد 28 جون 2009 کو خضدار ضلع کے علاقے اورناچ سے اس وقت لاپتہ ہو گئے تھے جب وہ ایک ہسپتال میں رات کی ڈیوٹی پر تھے۔

دہشت گردوں اور باغیوں سے جنگ کے نام پر بلوچستان اور سابق فاٹا میں کئی سال قبل شروع ہونے والی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ گزشتہ برسوں میں اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور سندھ سمیت بڑے شہری مراکز تک پھیل گیا ہے۔

ان لاپتہ افراد کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مسلسل مہم کے بعد مارچ 2011 میں جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن قائم کیا گیا تھا لیکن وہ بھی صرف چند لاپتہ افراد کو تلاش کرنے میں کامیاب رہا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے کچھ کارکنان کا اندازہ ہے کہ کمیشن کے پاس اب بھی 2 ہزار سے زیادہ غیر حل شدہ مقدمات باقی ہیں، بہت سے کیسز میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے سیکورٹی ایجنسیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ لوگوں کو عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں اٹھا لے جاتے ہیں، اس الزام کی حکام نے کئی بار تردید کی ہے۔

سمی دین بلوچ کے والد کی گمشدگی نے انہیں بچپن سے محروم کر دیا تھا اس لیے وہ 13 سال سے لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے بڑی ہو گئی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 2008 میں پی پی پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تمام وزرائے اعظم نے لاپتہ افراد کے بارے میں بات کی ہے، ان سب نے اس مسئلے کو حل کرنے کا عزم کیا لیکن آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

وہ کہتی ہیں ’شہباز شریف کی طرح عمران خان سمیت دیگر وزرائے اعظم نے ہمیں یقین دلایا کہ بلوچ لاپتہ افراد کا مسئلہ ان کی اولین ترجیح ہے لیکن ان دعووں کو حقیقت بنتے دیکھنا ابھی باقی ہیں‘۔

ان کے مطابق سویلین قیادت بدل جاتی ہے لیکن اس کی بیان بازی وہی رہتی ہے، جب وہ حکومت میں نہیں ہوتے تو وہ اس مسئلے پر آواز اٹھاتے ہیں اور اسے حل کرنے کا عہد کرتے ہیں، اقتدار میں آنے کے بعد وہ یا تو اسے بھول جاتے ہیں یا صرف بیان بازی کرتے ہیں۔

انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز خود عمران حکومت کے دوران شکار بنیں جب انہیں اور ان کے والد کو جیل میں ڈال کر ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ ان کی حکومت لاپتہ افراد کا اہم مسئلہ حل کرے گی، اب ان کی حکومت ہے، انہیں لاپتہ افراد کو رہا کرنا چاہیے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں