ملک ریاض کے اثاثوں میں اضافہ بہت زیادہ مشکوک ہے،برطانوی کورٹ

0
137

برطانوی ججز کے مطابق سنہ 2017 میں لندن کے بینک میں ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض ملک اور ان کی اہلیہ مبشرہ علی ملک کے پاس 56,917,357.00 پاؤنڈ تھے۔ دسمبر تک اسی بینک کے اکاؤنٹ میں یہ رقم بڑھ کر 138,505,397.00 پاؤنڈ ہو گئی۔

برطانونی جج جسٹس نکولا ڈیویز کے مطابق ایک خاص وقت میں برطانیہ میں ملک ریاض کے خاندان کے اثاثوں میں اس قدر اضافہ بہت زیادہ مشکوک ہے اور اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ اضافہ حکومت پاکستان سے سزا سے بچنے کی خاطر کیا گیا، جب وہاں کچھ سیاسی اور جوڈیشل پیشرفت میں بحریہ ٹاؤن کا کردار مشکوک ہو گیا تھا۔ برطانوی جج کے مطابق پاکستانی اداروں کی نظروں سے بچا کر اس تناظر میں یہ پیسہ برطانیہ تک پہنچایا گیا اور اب یہاں یعنی لندن میں ان اثاثوں کی قابل وصول مالیت 119,426,532.82 پاؤنڈ بنتی ہے۔ ملک ریاض کا این سی اے کے ساتھ تصفیہ 2019 میں ہوا جس کی تفصیلات این سی اے کی پریس ریلیز سے حاصل ہوتی ہیں۔

این سی اے نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کر دیا جائے گا۔

این سی اے نے تو اپنا وعدہ پورا کیا مگر یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سیدھی سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے کی ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔

یعنی جو رقم ریاست پاکستان کی ملکیت تھی وہ ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ ہوئی۔ ملک ریاض سے این سی اے نے جو معاہدہ کیا اس کی تفصیلات رازداری میں رکھی گئی ہیں اور این سی اے کے بعد حکومت پاکستان نے بھی یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ ریاست پاکستان کا پیسہ دوبارہ کیسے ملک ریاض کے استعمال میں لایا گیا۔

این سی اے کی وضاحت کے بعد ملک ریاض کی جانب سے ٹوئٹر پر شائع کیے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ کچھ عادی ناقدین این سی اے کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا۔’

ملک ریاض سے تازہ ترین فیصلے سے متعلق ان کا مؤقف جاننے کے لیے جب بی بی سی نے رابطہ کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی بحریہ ٹاؤن کے کسی ترجمان نے بھی اس فیصلے پر کوئی تبصرہ کیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں