پاکستان میں جبری گمشدگیاں حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتیں،اسلام آبا دہائیکورٹ

0
78

پاکستان کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں مشکل یہ ہے کہ اگر ریاست خود ملوث ہو تو ان مقدمات کی تفتیش کون کرے گا؟

انھوں نے کہا کہ عدالت، وکیل، صحافی یا کوئی اور، اِن مقدمات کی تفتیش نہیں کر سکتا۔

منگل کے روز صحافی اور بلاگر مدثر نارو اور اسلام آباد یونیورسٹی کے دو طلبہ کی جبری گمشدگی کے مقدمات کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں مگر ایسا وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

ان مقدمات میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت جبری گمشدگیوں کے معاملات کو بڑی سنجیدگی سے لے رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کوئی مثال دیں جس سے ظاہر ہو کہ حکومت اس حوالے سے بڑی سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ برس سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایک اہلکار ساجد محمود کو بھی اٹھایا گیا تھا اور بعدازاں جب وہ بازیاب ہو گئے تو انھوں نے کہا کہ وہ تو سیر و تفریح کے لیے شمالی علاقہ جات گئے تھے، جبکہ حالات اس کے بالکل مختلف ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئین موجود ہے اور آئین کے مطابق فوج اور سکیورٹی کے دیگر ادارے بھی اسی آئین کے پابند ہیں۔

انھوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کی ایک پالیسی کے تحت لوگوں کو اٹھایا گیا، اس پر کیا کہیں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

انھوں نے کہا کہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ نشاندہی ہو جائے کہ کوئی ادارہ اس میں ملوث ہے اور چیف ایگزیکٹیو کوئی ایکشن نہ لے تو وہ جوابدہ ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں سابق چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف کا نام لیے بغیر کہا کہ ملک کے ایک سابق چیف ایگزیکٹیو نے اپنی کتاب میں لکھا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا، اُن کی پالیسی تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے سابق فوجی صدر کو ’غاصب‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں منتخب چیف ایگزیکٹیوز کے ساتھ نہ ملایا جائے۔

انھوں نے کہا کہ سابق فوجی صدر اب مفرور ہیں۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ان کے لیے یہ کہنا آسان ہے کہ جس دور میں گمشدگیاں ہوئی ہیں، اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو کو ذمہ دار ٹھہرائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کہیں گے۔

انھوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بہت سے لوگ اب بھی حراستی مراکز میں رکھے گئے، اس پر کیا کہیں گے؟

اس پر اٹارنی جنرل نے ان حراستی مراکز میں رکھے گئے افراد کا ذکر تو نہیں کیا البتہ انھوں نے اسی پر ہی اکتفا کیا کہ حراستی مراکز سے متعلق ایک قانون بنا تھا اور وہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے ایک نیا قانون لایا جا رہا ہے تاہم انھوں نے اس قانون کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

فوٹو: آئی ایچ سی

سماعت کے دوران ایک شخص روسٹم پر آیا اور اس نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے دو بیٹے اسلام آباد میں واقع بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، جنھیں 2016 میں اٹھایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ان میں سے ایک ایل ایل بی اور دوسرا ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھ رہا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ان کے بیٹوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعہ کی ایف آئی آر جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی ہدایات پر درج ہوئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے۔

انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایک درخواست دی کہ ذمہ داری عائد کی جائے کہ یہ کس کا کام ہے لیکن اس پر ابھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے۔

انھوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں وفاقی دارالحکومت سے اِن کے دو بچوں کو اٹھا لیا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے سخت لہجے میں ریمارکس دیے کہ ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے علاوہ وزیر اعظم آفس کے علاوہ حساس اداروں کے دفاتر بھی اسلام آباد میں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ان دو بچوں کو اغوا کر لیا گیا اور ابھی تک ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مسنگ پرسنز کی فیملیز یہاں پھر رہی ہیں، ان کے پیاروں کو کون اغوا کر رہا ہے، حکومت اور وفاقی کابینہ جوابدہ ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے لیکن وہ جبری گمشدگی میں نہیں آتے۔ انھوں نے کہا کہ اکثر لوگوں نے جہاد میں شرکت کے لیے ملک کو چھوڑا۔

لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے مسنگ پرسن کیس میں ملوث ایک انٹیلیجنس افسر کی تصویر دکھائی تو لاپتہ شہری واپس آ گیا۔ انھوں نے کہا کہ شہری نے واپس آ کر بیان ریکارڈ کرایا کہ وہ افغانستان چلا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اگر حراستی مرکز کا دورہ کرایا جائے تو کافی لاپتہ شہری بازیاب ہو سکتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایسی بات نہیں، حراستی مرکز میں موجود تمام افراد کی شناخت اور لسٹ موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ حراستی مرکز میں موجود لوگوں کی ان کی فیملیز سے ملاقات بھی کرائی جاتی ہے۔

لاپتہ افراد کے مقدمات کے پیروی کرنے والے وکیل کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں لاپتہ افراد کے 8279 کیسز ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہو گی؟

انھوں نے کہا کہ اس عدالت کی حدود سے ایک شخص کو اٹھایا گیا اور اس کی تحقیقات میں کچھ نہ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایسی بات پر تو ریاست کو ہل جانا چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دستیاب ہیں، کیا ہوا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس واقعے کی تفتیش میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

صحافی اور بلاگر مدثر نارو کے بارے میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کے والدین اور فیملی کی وزیر اعظم سے ملاقات کروائی گئی لیکن اس کی بازیابی کے بارے میں ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو تین ہفتوں کی مہلت دی ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں