مقبوضہ بلوچستان: پاکستانی فوج کے ہاتھوں 11افراد جبری طور پر لاپتہ،5لاشیں برآمد

0
54

پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان میں گذشتہ پانچ روز کے اندر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے11افرادکو حراست میں لیکرجبری طور پر لاپتہ کردیا ہے جبکہ5لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

بلوچستان کی مقامی میڈیا ”سنگر آن لائن“ اور ”دی بلوچستان پوسٹ“کے ذرائعوں کے خبروں کے مطابق جبری گمشدگیوں کے یہ واقعات گذشتہ پانچ دنوں کے اندر اندر پیش آئے جن میں 11افراد پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے ہاتھوں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری طور پر لاپتہ ہوگئے جبکہ مختلف علاقوں سے 5لاشیں برآمد ہوئیں جن میں 2کا تعلق پاکستانی فوج کی اپنی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ سے تھاجن کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ وہ بلوچ آزادی پسند جنگجوؤں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگئے تھے جبکہ 2لاشیں ناقابل شناخت تھیں اور ایک لاش ایک لاپتہ شخص کی تھی۔

جبری گمشدگی

میڈیا رپورٹوں کے مطابق گذشتہ دنوں بلوچستان کے ضلع واشک سے پاکستانی فورسز سی ٹی ڈی اور ایف سی نے 4 نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا تھا۔

لاپتہ ہونے والوں میں سے ایک کو واشک خراسی کے علاقے سے ایف سی نے کینٹین سے اور 3کو واشک شہر سے حراست میں لیا گیا ہے جن میں دو کزن بھی شامل ہیں۔

لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کی شناخت بلال ولد عنایت اللہ، جہانزیب ولد موسیٰ، دیدگ ولد عطا اللہ اور عبید ولد وزیر کے ناموں سے ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق بلال کو رواں سال یکم جنوری کو ایف سی نے کینٹین خراسی سے حراست میں لیا ہے جو تاحال لاپتہ ہے۔

لاپتہ کیے جانے والے بلال، عبید اور دیدگ طالب علم ہیں جبکہ عنایت اللہ پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں۔

واضع رہے کہ بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار افرادکے لواحقین اپنے پیاروں کی گمشدگی کے واقعات کواس بنیاد پرچھپاتے ہیں تاکہ وہ صحیح سلامت واپس لوٹ آئیں۔ علاقے کے معتبرین بھی لاپتہ افراد لواحقین کو ڈراتے ہیں کہ گمشدگی کو ظاہر مت کریں لیکن وہ مہینوں تک بازیاب نہیں ہوتے تو پھر لواحقین مجبوراً میڈیا میں ان کی گمشدگی کو رپورٹ کرتے ہیں اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو اطلاع دیتے ہیں۔

اسی طرح گذشتہ تین دنوں سے ضلع کیچ کے علاقے زامران دشتک میں پاکستانی فوج کی جارحیت جاری ہے جہاں فورسز نے5 افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا ہے۔

لاپتہ ہونے والوں کی شناخت ریاض ولد فتح محمد، نثار ولد فتح محمد، مدی ولد کہدہ سہراب اور بشام کے ناموں سے ہوئی ہے جبکہ لاپتہ ہونے والے ایک شخص کی شناخت تاحال نہیں ہوسکا۔

علاوہ ازیں 14جنوری کو ضلع پنجگور میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک شخص کو اغواء کرلیاتھا۔

مذکورہ شخص کو پنجگور شہر کے علاقے چتکان سے حراست میں لیا گیاتھا، جسکی شناخت حفیظ ولد عبدالقادر کے نام سے ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز مسلح افراد جو سفید ویگو گاڑی نمبر BF2021 پر سوار تھے ہمودی نامی نوجوان کو بھی حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا۔

اسی طرح 15جنوری کو ضلع ہرنائی سے پاکستانی فورسز نے ایک اسکول ٹیچر کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیاتھا۔

لاپتہ ہونے والے شخص کی شناخت ماسٹر مجیب الرحمان سمالانی ولد عبدالرحمن سکنہ شاھرگ کے نام سے ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ شخص کو گذشتہ شب فورسز نے آٹھ بجے کے وقت کھوسٹ اور شاھرگ کے درمیان علاقے سے فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا تھا۔

لاش برآمدگی

بلوچستان کے علاقے حب سے منسلک علاقہ گڈاپ کے بلوچ کالونی میں 15جنوری کو انتظامیہ کو 2 افراد کی لاشیں ملی تھیں جو ناقابل شناخت تھیں۔

پولیس کے مطابق ایک لاشیں مرد اور خاتون کی تھی، دونوں لاشیں حب ڈیم کے قریب ایک گھڑے میں مقامی افراد کو ملیں۔

پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر دونوں لاشیں اسپتال منتقل کردیا ہے تاہم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ لاشیں کئی روز پرانی ہیں جس کے باعث لاشوں کی شناخت ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح 16جنوری کو خضدار کے علاقے باغبانہ سے چار مہینے قبل پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے شخص کی لاش برآمدہوئیتھی۔

جس کی شناخت دیدار علی زہری کے نام سے ہوگئی تھی جو باغبانہ کا رہائشی تھا۔

کہا جارہا ہے کہ وہ چار مہینے قبل لاپتہ ہوا تھا۔

اتوار کے روز ان کی لاش باغبانہ کے پہاڑیوں سے برآمد ہوئیتھی۔

واضع رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کے ساتھ ساتھ لاشوں کی برآمدگی اورسیکورٹی فورسز کے جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کے قتل کے واقعات میں تیز ی سے اضافہ ہوا ہے جسے انسانی حقوق اور سیاسی تنظیموں نے نوٹس کیا ہے۔

دریں اثنا 17جنوری کوبلوچستان کے علاقے ضلع پنجگور میں 2لاشیں برآمد ہوئیں تھیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بلوچ آزادی پسند مسلح جنگجوؤں کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگئے تھے اور ان کا تعلق پاکستانی فوج کی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ سے تھا۔

ہلاک ہونے والوں کی شناخت مہیم سورانی اور اسد پرومی کے ناموں سے ہوگئی تھی۔

جھڑپ پنجگور اور پروم کے درمیانی علاقے درگِ دپ کے مقام پر ہوا تھا۔

مہیم سورانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق سرکاری حمایت گروہ یعنی ڈیتھ اسکواڈ سے ہے جو بلوچوں کے اغوا، قتل اور آزادی پسند بلوچ جنگجوؤں کے مخبری سمیت سماجی برائیوں کے کاموں میں شامل تھا۔

آٹھ دسمبر کو بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے)نے پنجگور کے نواحی علاقے میں پانچ افراد ہلاک کیا تھا جس کے بارے میں مذکورہ تنظیم نے یہ کہا تھا کہ یہ لوگ مہیم سورانی کے کارندے تھے۔

ترجمان بی آر اے نے کہا تھا حملے میں ہلاک ہونے والے تمام کارندے مئی 2020 کو پروم میں ہونے والے جھڑپ میں شامل تھے جہاں بی ایل ایف کمانڈر میجر نورا پیرک ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے تھے۔ اس گروہ کے کارندے ریاستی سرپرستی میں چوری، ڈاکہ زنی اور غریب عوام کے عصمت دری میں بھی ملوث تھے۔

اس کے بعد کئی وٹس ایپ گروپ میں مہیم سورانی کا ایک آڈیو گردش کرنے لگا تھا جس میں مہیم خود اعتراف کررہا تھا کہ وہ پروم واقعہ میں شامل تھا۔

مہیم سورانی پر اس سے قبل بھی یہ الزام لگا ہے کہ وہ لوگوں کو اغواء و قتل سمیت کئی سماجی برائیوں میں ملوث ہیں اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے انہیں مکمل چھوٹ دی ہوئی تھی۔

بلوچستان میں پاکستانی فوج اور اس کے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ لوگوں کی کی جبری گمشدگیوں میں براہ راست ملوث ہیں جس کے چشم دید گواہ خود لاپتہ افرادلواحقین ہیں کہ کس طرح پاکستانی فو ج اور اس کے مقامی ڈیتھ اسکواڈ گھروں میں یا پبلک پیلس پر لوگوں کو اسلحے کی زور پر اغوا کرکے لاپتہ کردیتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں