اسلام آباد ہائیکورٹ کا پاکستان نیوی کے گالف کورس کی فوری بندش کا حکم

0
109
فوٹو: آئی ایچ سی

پاکستان کے اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ مارگلہ نیشنل پارک میں موجود مونال ریسٹورنٹ اور سیکٹر ای-8 میں واقع پاکستان نیوی کے زیر انتظام چلنے والے گالف کورس کو فوری طور پر سیل کیا جائے۔

یہ احکامات اسلام آباد ہائی کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں قائم تجاوزات کے خلاف ایک کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دیے۔

عدالت نے اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ زمین پر ملٹری لینڈ ڈویلپمنٹ کی ملکیت کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے انوائرومینٹل پروٹیکشن ایجنسی کو یہاں پر تعمیرات سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

فوٹو : اے ایف پی

اس کیس میں منگل کے روز ہونے والی سماعت کا آغاز ہوا تو وفاقی سیکریٹری داخلہ، وفاقی سیکریٹری دفاع اور چیئرمین سی ڈی اے عدالت میں پیش ہوئے جہاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس امر پر حیرانی کا اظہار کیا کہ حکومت اب تک اس فیصلے پر عمل درآمد کیوں نہیں کروا سکی جو ریاستی زمین پر تجاوزات سے متعلق تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے، وہ شاکنگ (حیران کن) ہے۔’

وفاقی سیکریٹری داخلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت آپ کو بلاتی ہے، فیصلے دیتی ہے لیکن اسلام آباد میں لاقانونیت ہے۔ ’ریاستی زمین پر تجاوزات سے متعلق فیصلے پر بھی عمل نہیں ہوا۔ کیا اچھا لگتا ہے کہ ہم ہر کیس میں توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں؟‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد میں آرمڈ فورسز کے تین نئے سیکٹرز بنے ہیں، انھیں کون دیکھے گا؟ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ فورسز کے سیکٹرز میں بھی تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں، کیا (قوانین پر) عمل درآمد ہو رہا ہے؟ ’ایئر فورس نے جتنی تعمیرات کیں، کیا سی ڈی اے سے منظوری لی؟ سیکریٹری دفاع موجود ہیں، ان کے تحفظات بھی سُن لیں اور قانون پر سختی سے عمل درآمد کرائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے کچھ سیکورٹی تحفظات ہوں۔‘

سیکریٹری دفاع نے عدالت کو بتایا نیشنل پارک میں بسنے والے شہریوں کی طرف سے بھی تعمیرات اور تجاوزات ہو رہی ہیں جب کہ چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ ہر ادارے نے کہیں نا کہیں تجاوزات کر رکھی ہیں۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا ہائی کورٹ نے کہیں تجاوازت کی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ادھر سے ہی شروع کریں۔

چیئرمین سی ڈی اے نے مؤقف اپنایا کہ غور و خوض کے بغیر اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں ترمیم اور تبدیلیاں کی جا رہی رہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب حکومت کے ادارے تجاوزات نہیں کریں گے تو کسی اور کی بھی ہمت نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ نیشنل پارک کی زمین کی نشاندہی اور حدبندی کون کرے گا، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے جواب دیا کہ یہ کام ڈسٹرکٹ کلیکٹر کرے گا، جس کی معاونت سروے آف پاکستان اور ڈپٹی کمشنر آفس کرے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریاست کی رٹ کیوں کمزور ہوئی ہے؟ انھوں نے ریمارکس دیے کہ ’عام آدمی تو نیشنل پارک میں نہیں گھس سکتا، یہ اشرافیہ کی وجہ سے ہے۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے ایریا میں کوئی سرگرمی نہیں ہو سکتی۔ یہ زمین وفاقی حکومت کی ہے جہاں سے کوئی گھاس بھی نہیں کاٹ سکتا۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت آٹھ ہزار ایکڑ زمین دی گئی؟ کون سا نوٹیفیکیشن ہے جس کے تحت یہ زمین فورسز کو دے دی گئی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سنہ 1910 کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ جگہ فورسز کے پاس ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہاں کسی ایسی بات کا دفاع کرنا چاہتے ہیں جس کا دفاع نہیں کر سکتے؟

انھوں نے کہا کہ ’جب یہ نیشنل پارک کا ایریا نوٹیفائی ہو گیا تو پرانا نوٹیفکیشن ختم ہو گیا۔‘

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کیسی بات کر رہے ہیں، فورسز کو آپ متنازع بنا رہے ہیں۔ یہ مفاد عامہ میں نہیں۔‘ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی پراپرٹی کسی ڈیپارٹمنٹ کی ملکیت نہیں ہو سکتی،یہ ایریا نیشنل پارک کے نام پر نوٹیفائی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے موقف اختیار کیا کہ یہ ایشو عدالت کے سامنے آیا ہی نہیں جو آپ سُن رہے ہیں۔ اس کی اونرشپ وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گی۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے موقف کی مخالفت کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک پر اگر کوئی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے تو غلط ہے۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک محفوظ شدہ علاقہ ہے جو وفاقی حکومت کا ہے۔

چیف جسٹس مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرمڈ فورسز کو بھی قانون پر عمل کرنا ہو گا۔ ’ہر شہری آرمڈ فورسز کا احترام کرتا ہے لیکن جب تجاوزات کریں گے تو کیا پیغام جائے گا۔ تمام آرمڈ فورسز کو وزارت دفاع کنٹرول کرتی ہے اور سیکریٹری دفاع یہاں موجود ہیں۔‘

چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے مخاطب ہوتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے یقینی بنانا ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ ہو کہ بعد میں شرمندگی ہو۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان نیوی نے تجاوزات کر کے گالف کورس بنایا، یہ بات مناسب نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع سے کہا کہ ’آپ نے خود تسلیم کیا کہ گالف کورس غیر قانونی ہے، اسے سربمہر کر کے انکوائری کریں۔ گالف کورس کی زمین کو آج ہی سی ڈی ای کے حوالے کریں۔ کہا گیا گالف کورس سیکورٹی مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔‘

فوٹو : بی بی سی اردو

چیف جسٹس نے اسلام آباد کے مشہور ریسٹورنٹ مونال کے بارے میں بھی سوال کیا کہ ’مونال کا کیا سٹیٹس ہے؟ وہ کیسے تعمیر ہو سکتا تھا؟ وہ تو وہاں بننا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میٹروپولیٹن کارپوریشن کیسے نیشنل پارک میں گھس سکتی ہے؟ انھوں نے حکم جاری کیا کہ مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کریں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے ہدایت دی کہ انوائرومینٹل پروٹیکشن ایجنسی کو تعمیرات سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرنے کا کہا جائے۔

واضح رہے کہ چند دن قبل ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد راول ڈیم کے کنارے پاکستانی بحریہ کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے نیوی سیلنگ کلب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین ہفتوں میں منہدم کرنے اور بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی سمیت ملوث افسران کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم بھی دیا تھا۔

یہ بات تو اب پاکستانی عوام سمیت پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی فوج غیر قانونی طریقوں سے عوامی اور سرکاری اراضیات پرڈیفنس کے ضروریات کے نام پرکم داموں یا دھونس دھمکیوں سے مفت میں حاصل کرتی ہے اور پھر انہیں ڈیفنس کیلئے استعمال نہیں کی جاتی بلکہ افسران ان پر شادی ہالز، گالف کلبز اور دیگر کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کرکے اپنے لئے بھاری پیسہ بناتے ہیں اور پھر سیاست دانوں کو کرپٹ ظاہر کرکے فوج اور ان سے منسلک تمام اداروں کو کرپشن سے پاک ظاہر کرتے ہیں کیونکہ میڈیا ان کے کنٹرول میں ہوتا ہے ۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں