افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن پر نیمروز میں بھی پاکستانی فوج کی خاردار تاریں اکھاڑ دیے

0
49
فوٹو : دی بلوچستان پوسٹ

افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن پہ ننگرہار کے بعد افغانستان کے بلوچ اکثریتی صوبے نیمروز کے سرحد پر بھی خار دار تار لگانے کے کام کو روک دیا اور تمام سامان اپنے ساتھ لے گئے۔

ڈیورنڈ لائن پہ پاکستانی فوجی حکام کی جانب سے لگائے گئے خاردار تاراکھاڑنا افغان طالبان کی پاکستان کیخلاف ایک غیراعلانیہ جنگ کا آغاز تصور کیاجارہاہے۔

بلوچستان کی اسٹیک ہولڈر میڈیا ”دی بلوچستان پوسٹ“نے اپنے کابل ذرائع کے حوالے سے نیوز بریک کی ہے کہ ڈیورنڈ لائن پہ طالبان نے نیمروز صوبے کے ضلع چاربرجک کے علاقے ڈک میں پاکستانی فورسز کی جانب سے خار دار تار لگانے کے کام کو روک دیا اور تمام وسائل اپنے ہمراہ لے گئے۔

خیال رہے کہ روان ہفتے یہ دوسرا واقعہ ہے کہ طالبان فورسز کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پہ کام روک دیا گیا ہے اس سے قبل طالبان فورسز نے افغان صوبے ننگرھار میں بھی سرحد پر خار دار تار لگانے کے کام کو روک دیا تھا اور اس کے بعد ننگرھار میں جنگ کا ایک ماحول پیدا ہوا تھا تاہم بعد ازاں اس معاملے بات چیت سے حل کیا گیا۔

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی طالبان حکام ڈیورنڈ لائن کے حوالے مزید سخت حکمت عملی اپنائینگے۔

ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے افغان بہت حساس ہیں وہ اس کو بین الاقوامی سرحد کے بجائے ایک عارضی لکیر کہتے ہیں دونوں جانب کے زمین کے حوالے سے موقف رکھتے ہیں کہ وہ افغانوں کی سرزمین ہے۔

ڈیورنڈ لائن کو افغان اور بلوچ متنازع لکیر قرار دیتے ہیں جسے افغانستان بین الاقوامی بارڈر تسلیم نہیں کرتا۔ 1893 میں افغان امیر عبدالرحمان اور برطانوی ہند کے سیکرٹری سر مارٹیمر ڈیورنڈ نے سرحدی حد بندی کی اور اس سمجھوتے پر دستخط کیے اس کی میعاد سو سال تھی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل سرحد کا بڑا حصہ یعنی گیارہ سو کلومیٹر سے زائد سرحد بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔ پاکستانی حکومت اس سرحد پر خار دار باڑ لگا رہی ہے۔

اس سے پہلے بھی سرحد پر باڑ لگانے والی پاکستانی ٹیم پر سابق افغان حکومت کے سرحدی فورسز نے حملے کئے ہیں۔

ماضی میں بھی افغانستان میں جب طالبان نے افغانستان پہ قبضہ کیا تھا پاکستانی حکام ملا عمر کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے اور ملا عمر سے اسے بین الاقوامی سرحد منظور کرنے پہ زور دیتے رہے ہیں تاہم اس وقت بھی طالبان حکومت نے اسے سرحد تسلیم نہیں کی تھی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں