پاکستان کے جوہری پروگرام میں معاونت پر 13 پاکستانی کمپنیوں پر امریکی پابندیاں عائد

0
273

امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام میں مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے کے الزام میں 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ تاہم امریکی محکمہ تجارت کی پابندیوں کا نشانہ بننے والی ان تمام 13 کمپنیوں نے خود پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام سے متعلق جن 13 کمپنیوں کے زیادہ تر عہدیداروں پر پابندیاں لگائی ہیں، وہ بظاہر مکمل اندھیرے اور لاعلمی کا شکار ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا یا ان پابندیوں کے قانونی مضمرات کیا ہیں؟

26 نومبر 2021 کو امریکی محکمہ تجارت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا جس کے ذریعے 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یہ وہ کمپنیاں تھیں جو امریکہ کے ساتھ تجارت اور کاروبار کر رہی تھیں۔

امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ نے ان 13 پاکستانی کمپنیوں کے نام ’اینٹٹی لسٹ‘ میں شامل کر دیے جو ’ان اداروں کی نشاندہی کرتی ہے جن کے بارے میں اس خیال کے لیے مخصوص، قابل بیان اور قابل قبول جواز و حقائق موجود ہوں کہ وہ ادارے امریکہ کے خارجہ پالیسی مفادات یا قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں یا اس وقت بھی ملوث ہیں۔‘

ان 13 پاکستانی کمپنیوں کی تقسیم اس طرح سے کی گئی ہے کہ یہ امریکہ سے حساس ٹیکنالوجی کی درآمد کے ذریعے پاکستان کے جوہری پروگرام میں مدد دے رہی ہیں اور یہ امریکہ سے ٹیکنالوجی کی درآمد کے ذریعے پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔

امریکی محکمہ تجارت کی دستاویز کے مطابق ’کیو اینڈ این ٹریڈرز، یو ایچ ایل کمپنی، جیوڈنگ ریفریجریشن اینڈ ایئر کنڈیشننگ ایکویپمنٹ کو (پرائیویٹ) لمیٹڈ، کے سافٹ انٹرپرائیزز، سلجوق ٹریڈرز (ایس ایم سی پرائیویٹ) لمیٹڈ، گلوبل ٹیک انجینئرز، عاصے ٹریڈ اینڈ سپلائیز، اور جیڈ مشینری پرائیویٹ لمیٹڈ، تمام ہی پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیاں ہیں جو پاکستان کی غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں میں حصہ دار ہیں۔‘

امریکی محکمہ تجارت کے مطابق کچھ پاکستانی کمپنیاں امریکہ سے حساس ٹیکنالوجی کے حصول میں چینی کمپنیوں کی بھی معاونت کر رہی تھیں۔

محکمے کے مطابق یہ کمپنیاں پاکستانی جوہری پروگرام کے لیے امریکہ سے نہ صرف حساس آلات خرید رہی تھیں بلکہ پاکستانی کمپنیوں کو ’فرنٹ‘ (آڑ) کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔

امریکی محکمہ تجارت کی دستاویز کے مطابق ’پولی ایشیا پسیفک لمیٹڈ (پی اے پی ایل) اور پیک ٹیک کمپنی لمیٹڈ کو (فہرست میں) شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دونوں کمپنیاں چین میں قائم ہیں اور پاکستان کی غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں میں حصہ دار ہیں۔‘

اینڈ یوزر ریویو کمیٹی (ای آر سی) نے القرطاس کو بھی (فہرست میں) شامل کرنے کا فیصلہ کیا جو پاکستان میں قائم ہے کیونکہ ’یہ پاکستان کی غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں میں حصہ دار ہے۔‘

امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ نے ’پاکستان میں قائم براڈ انجینئرنگ کو پاکستان کے غیر محفوظ بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام میں حصہ دار ہونے کی بنا پر شامل کیا ہے۔‘

’ای آر سی نے پاکستان میں قائم پرائم ٹیک اور اس کے دو ملازمین محمد اشرف اور محمد فرخ کے نام فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جو پاکستان میں کام کرتے ہیں۔

اُنھیں پاکستان میں قائم ادارے ٹیک لنکس کے لیے مطلوبہ لائسنس کے بغیر ایسی اشیا حاصل کرنے پر ’اینٹری لسٹ‘ میں شامل کیا گیا جن پر ’ای اے آر‘ (ایکسپورٹ ایڈمنسٹریشن ریگولیشنز یعنی برآمدات کے انتظام سے متعلق ضابطے) کی شرائط لاگو ہوتی ہیں جنھیں ہم نے ستمبر 2018 میں فہرست میں شامل کیا۔‘

ان تمام کمپنیوں پر براہ راست امریکہ میں کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ امریکی محکمہ تجارت نے ان کمپنیوں کے لیے لازمی شرط عائد کی ہے کہ وہ امریکہ سے کچھ درآمد کرنے سے پہلے لائسنس حاصل کریں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں