افغانستان پر مہاجرین پر حملوں کے خلاف بی آر پی کا جرمنی اور برطانیہ میں مظاہرے

0
44

بلوچ ری پبلیکن پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ خواتین اور بچوں کے قتل عام، جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کی شہادتوں اور افغانستان میں مقیم بلوچ پناہ گزینوں پر مسلسل حملوں کے خلاف جرمنی اور برطانیہ میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جرمنی کے شہر بون میں ہفتے کے روز ایک احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا جہاں پارٹی کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی آر پی جرمنی زون کے سوشل میڈیا منیجر عبدالجلیل نے کہا کہ ہم رامیز ،شراتون اور اللہ بخش بلوچ کے لیے انصاف چاہتے ہیں جو ایف سی کے ہاتھوں مارے گئے۔

جبکہ پارٹی کے یونٹ انچارج حفیظ جان نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو ریاستی فورسز ایک منظم منصوبے کے تحت مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔

یونٹ کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری راشد بلوچ سمیت دیگر ارکان لال محمد ، مظفر بلوچ ، اعجاز علی اور در محمد نے بھی مظاہرے میں شرکت کی اور ریاستی فورسز کے مظالم کی مذمت کی۔

لندن میں ہونے والے مظاہرے میں پارٹی کے مرکزی ترجمان شیر محمد بگٹی نے خطاب کرتے ہوئے کہا بلوچستان میں حالیہ دنوں پاکستانی افواج نے قتل و غارت گری میں تیزی لائی ہے اور اس دوران خواتین اور بچوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔

شیر محمد بگٹی نے حکومت برطانیہ سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ قوم کے قتل عام کا نوٹس لیں اورافغانستان میں مقیم بلوچ پناہ گزینوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرئے۔

جبکہ پارٹی کے مرکزی رہنما منصور بلوچ کا کہنا تھا کہ کیچ میں رونماء ہونے والے حالیہ واقعات کوئی حادثے نہیں ہیں بلکہ پاکستانی فوج کے ہاتھوں جاری بلوچ قوم کی نسل کشی کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اگر حادثے ہوتے تو ایسے حادثے صرف بلوچستان میں ہی کیوں پیش آتے ہیں اور ان کی کوئی تحقیقات کیوں نہیں ہوتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ سمیت یورپی ممالک سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسے واقعات کے روک تھام کے لیے اپنا عملی کردار ادا کرے۔

لندن مظاہرے میں بی آر پی کے مرکزی رہنماؤں کے علاوہ قادر بخش بگٹی، نثار بلوچ، بی این ایم کے رہنماء فہم بلوچ، بی ایچ آر سی کے رہنماء عبدللہ بلوچ اور لندن میں متحرک سیاسی کارکن گودی مھناز بلوچ سمیت کارکنان کی ایک بڑی تعداد شریک رہی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں