مقبوضہ بلوچستان اور 11 اگست ،نیوز انٹرونشن خصوصی رپورٹ

0
291

بلوچ قوم ایرانی بلوچستان، کرمان تا حد ایلان وگیلان، افغانستان کے زیر انتظام علاقے جن میں رباط، ہلمند، نیمروز اور فراح قابل ذکر ہیں کے علاوہ پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے بعض علاقے جہاں آج بھی بلوچ قوم آباد ہیں یہی خطہ عظیم تر بلوچستان بھی کہلاتا ہے جس کا نقشہ اولذکر عظیم بلوچ حاکم نصیرخان نوری نے کھینچا۔از بعد میر عبدالعزیز کرد اور بلوچ مورخین سردار خاں، فاروق بلوچ اور ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ جیسے دانشوروں کا اس پہ اتفاق۔اس کے علاوہ اس پورے خطے میں موجود اب تک کے دریافت شدہ آثار قدیمہ کے نوادرات کو دیکھا جائے تو ان میں بھی ہمیں بلوچی ثقافت کا عنصر دیکھنے کو ملتا ہے لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بلوچ قوم کا نسلی سلسلہ بلوچستان میں مدفون انہی آثار سے ملتی ہے جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔

عظیم تر بلوچستان پہ بلوچوں کی باقائدہ حکمرانی کا آغاز


؎ قمبرانی بلوچوں نے سوراب اور اس کے مضافات میں آباد دیگر بلوچ قبائل کویکجاء کرکے 1410ء میں نغاڑ جو سوراب ہی میں واقع ایک علاقہ ہے کو پایہ تخت بنا کے اپنی حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ انہوں نے اپنی حکومت کو وسعت دینے کے لیے آہستہ آہستہ جھالاوان میں آباد بلوچ قبیلہ جدگالوں کو شکست دیکر پورے جھالاوان کو اس نئی بلوچ ریاست کا حصہ بنالیا۔لیکن انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ اگر بلوچ قومی ریاست کو مضبوط خطوط پہ استوار کرنا ہے تو یہ لازم ہے کہ تمام بلوچ علاقوں کو ایک ہی مرکز کے تحت یکجاء کرناہوگا۔ لہذا بلوچوں نے اپنے قبائل کی منتشر قوت کو یکجاء کرنے کے ساتھ ان علاقوں کو بھی اپنی ریاست میں شامل کرنا شروع کیا جہاں زیادہ مزاحمت کی توقع نہیں تھی اس سے بلوچ حکومت کسی حد تک مستحکم ہوگیا۔
120سال تک سوراب اور جھالاوان پہ حکمرانی کرنے کے بعد بلوچوں نے 1530ء میں میر عمر میروانی کی سربرائی میں قلات پہ حملہ کردیا جہاں ان دنوں ارغونوں کی حکمرانی تھی۔ارغونوں کو اس جنگ میں شکست ہوئی اور یوں قلات بلوچ ریاست کا نہ صرف حصہ بنا بلکہ پایہ تخت کا درجہ بھی حاصل کرلیا۔ (1666ء) کے بعد ریاست قلات میروانیوں سے قمبرانی بلوچوں کی ایک اور شاخ کے پاس چلی جاتی ہے جس کا پہلا حاکم میر احمد خان اول تھا۔
میر احمد خان احمد زئی خاندان کا جد امجد ہے اسی لیے میراحمدخان کے بعد جتنے بھی خوانین گزرے ہیں انہیں احمدزئی کہا جاتا ہے۔ 1666ء میں میر حسن خان میروانی کے وفات کے بعد ریاست کی حاکمیت احمدخان اول کو تفویض کی گئی۔میر احمد خان بلوچ نے وقت و حالات کی مناسبت سے بلوچ قوم کو یکجاء کرنے اور ان کی عسکری قوت مضبوط کرنے کی جانب زیادہ توجہ دی۔ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ اگر جلد بلوچ قوم کی عسکری قوت کو مضبوط نہ کیا گیا تو ہندوستان کا حاکم شاہجان قلات کو تسخیر کرنے کے لیے تگ و دو کریگا اسی لیے انہوں نے مختصر مدت میں بلوچ قبائل پہ مشتمل ایک عظیم عسکری قوت تیار کرلی۔جب بلوچ قوم کی عسکری طاقت اطمینان بخش ہوئی تو انہوں نے تمام بلوچ علاقوں کو ایک ہی ریاست کی عملدار ی میں لانے کی جدوجہد شروع کی۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں ان کی 29سالہ دور اقتدار جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں انہوں نے نہ صرف باروزئیوں کے خلاف سبی اور اس کے مضافات کو بلوچ ریاست کا حصہ بنانے کے لیے 18لڑائیاں لڑیں جس کے بعد باروزئیوں کو کبھی سراٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی، اس کے علاوہ جٹ اور مغلوں کے خلاف بھی انہوں نے جنگیں لڑیں۔ ان میں کھڈ مستونگ کے مقام پر مغلوں کے خلاف جنگ جس میں مغلوں نے ایسی شکست کھائی جس کے بعد انہوں نے دوبارہ بلوچستان پہ قبضہ کرنے کی کوشش ہی نہیں۔ان کے علاوہ میراحمدیار خان نے شال اور پشین جو ان دنوں حاکم قندھار کے زیرتسلط تھے ان علاقوں پہ بھی لشکر کشی کردی۔اپنی حکمرانی کے آخری ایام میں ریاست قلات کو وسعت دینے اور مستحکم بنانے کے لیے خان احمد خان نے کرخ اور درہ مولہ تک کا پورا علاقہ ریاست قلات کی عملدار میں شامل کرلیا۔ یعنی 1695ء خان میراحمد کی وفات تک بلوچ ریاست وسیع و عریض رقبے پہ پھیل چکا تھا پر اب بھی بعض بلوچ علاقے تھے،جنہیں ایک ہی ریاست کے ماتحت لانا تھا۔


میر احمد خان کی وفات کے بعدمیر محراب خان اول،جو میر احمد خان کا بڑافرزند اور ولی عہد تھا،کو ریاست کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ میرمحراب خان کا دور حکومت کافی مختصر رہا جہاں وہ کرخ کے مقام پر کلہوڑوں کے خلاف جنگ میں زخمی ہوگئے اورتین دن بعد زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوجاتا ہے۔ یہ جنگ درر اصل باروزئیوں کی ایک لڑکی، جسے کلہوڑہ حکمرانوں نے اغواء کرلیاتھا، کی وجہ سے پیش آیا۔ باروزئیوں کا علاقہ چونکہ اب بلوچ ریاست کا حصہ بن چکا تھا اورمسئلہ چونکہ بلوچ ریاست میں ایک بارزوئی خاندان کی ایک لڑکی کا تھا اسی لیے میر محراب خان نے بلوچی ننگ و ناموس کو مدنظر رکھ کر کلہوڑوں کے خلاف لشکرکشی کی اور کرخ کے مقام پر انہیں شکست دیا اور ان کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ میر محراب خان کی شہادت کے بعد حاکم ریاست میر سمندر خان کے عہد میں مغل حکمرانوں نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے شہید میر محراب خان کے خون کے بدلے کراچی کا بندر گاہ ریاست بلوچستان کی عملداری میں دیا۔
میر سمندر خان کے بعد میراحمدخان دوئم ریاست کا حاکم بنا لیکن وہ بہت جلد اپنے چھوٹے بھائی عبداللہ خان کے ہاتھوں مارا گیا جس کے بعد میرعبداللہ خان ریاست قلات کا حاکم بن جاتا ہے۔ میرعبداللہ خان کا عہد بلوچ تاریخ کا ایک روشن باب ہے جنہوں نے بلوچ ریاست کو مزید وسعت دینے کے لیے سرتوڑ کوششوں کے ساتھ بلوچ قوم کو فنون حرب و ضرب کا دھنی بنادیا۔میر عبداللہ خان طبعاً مہم جو شخص تھا اسی لیے پوری دور حکمرانی میں وہ جنگوں میں مصروف رہا۔ایسا بھی نہیں کہ یہ دفاعی جنگیں تھیں بلکہ عبداللہ خان کی جنگجویانہ طبیعت نے اسے کچھی، قندھار اور ڈیرہ جات سے بندر عباس تک مہم جوئی میں مصروف رکھا البتہ ان جنگو کی ایک بڑی وجہ ریاست کی معاشی ضروریات کو پوری کرنا تھا۔
عبداللہ خان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہی وہ بلوچ حکمران تھا جس نے عظیم تر بلوچستان کوحقیقت کا روپ عطا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ان تما م خطوں میں گو کہ عبداللہ خا ن نے ریاست قلات جس میں ان دنوں مکران، مغربی بلوچستان، ڈیرہ جات، کچھی اور سندھ کے علاقے شامل نہیں تھے لیکن وہاں وہ اور اس کے حواری بلوچوں کو دیگر اقوام کا دستنگر دیکھ چکے تھے اسی لیے جب نصیر خان کا دور حکومت شروع ہوتا ہے تو اس کی اولین ترجیح ان تمام علاقوں کوجہاں بلوچ آباد ہیں ایک مرکز کے تحت لانا تھا۔
عبداللہ خان جسے سندھ کے باسی پہاڑی عقاب، افغان قہار خان اور انگریز عبداللہ دی کنکرر(عبداللہ خان فاتح) کے نام سے یاد کرتے ہیں جو اس کی عظمت اور بسیرت کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ میر عبداللہ خان نے زیادہ تر توجہ بلوچ علاقوں کی جانب دیا البتہ ریاست کے سرحدی علاقوں پہ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے انہوں نے افغانوں اور سندھ کے حکمرانوں کے خلاف لڑائیاں لڑی، لیکن ان حکمرانوں کے خلاف بھی اگر ہم اس کی کاروائیاں دیکھیں تو مقصد واضح ہوجاتا ہے کہ عبداللہ خان کو وہ تمام علاقے ریاست قلات میں شامل کرنا تھا جہاں بلوچ آباد ہیں۔ اگرچہ اس کی زندگی میں اس کا یہ خواب پورا نہیں ہوا لیکن آخری جنگ میں جو کلہوڑہ حکمرانوں کے خلاف کچھی کے میدانوں میں لڑی گئی جس میں عبداللہ خان شہید ہوگئے اور اس کی شہادت کے بعد وہ تما م علاقے ایک معاہدے کے تحت ریاست قلات کا حصہ بن گئے یعنی کہ اس نے اپنے لہو سے سندھ کے ساتھ بلوچ ریاست کی سرحدی لکیر کو حتمی شکل دی۔
عبداللہ خان کی شہادت کے بعد 18سالوں تک بلوچ ریاست نااہل حکمرانوں کی وجہ سے دیگر گوں کی کیفیت کا شکار رہا تاآنکہ نصیر خان نوری تخت نشین ہوتا ہے۔
نصیر خان کے عہد میں بلوچ ریاست مغرب میں بندر عباس، مشرق میں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ سماعیل خان کے کچھ علاقے، اور شمال میں جلوگیر (کچلاک کے مضافات میں واقع ہے)جنوب مشرق میں جیکب آباد، اور جنوب، مغرب میں ساحل مکران تک پھیل گیا۔نصیرخان نوری کا عہد بلوچ تاریخ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے جہاں انہوں نے ایک جانب بلوچ ریاست کو وسعت دی تو دوسری جانب1758ء کے معاہدے کی رو سے بلوچستان کی اندرونی اور خارجہ پالیسی کی بنیاد پہ بلوچوں کی آزاد حیثیت آئینی اور تاریخی طور پہ روشناس کرایا۔ نوری نصیر خان کاعہد بلوچ تاریخ کا سب سے روشن باب ہے جہاں اس عظیم حکمران نے نہ صرف ان تمام علاقوں کو جہاں بلوچ آباد ہیں ایک ہی مرکز کے ماتحت لایا بلکہ ان طاقتوں سے بھی اپنا لوہا منوایا جو بلوچ ریاست کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ نوری نصیر خان 1749ء میں تخت نشین ہوتا ہے۔ نصیرخان کی اولعزمی نے اسے غیروں کی باجگزاری کے خلاف بغاوت پہ اکسایا جس کا نظارہ ہم تاریخ میں نوری نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی کے درمیان ہونے والی جنگوں میں دیکھتے ہیں۔دو لڑائیوں کے بعد ہی احمدشاہ ابدالی کو اس بات کا ادراک ہوا کہ بلوچ ریاست کو اپنی مفتوحات میں شامل کرنا ممکن نہیں اسی لیے دوسری جنگ میں ہی احمدشاہ ابدالی حوصلہ ہار کر ریاست قلات کے ساتھ1758ء معاہدے پہ رضامندی ظاہر کردی جسے معاہدہ قلات اور معاہدات عدم مداخلت کانام دیا جاتا ہے۔ بلوچ ریاست کی مکمل آزاد حیثیت کو انڈین مصنف گنڈا سنگھ بھی اپنی کتاب ”احمدشاہ ابدالی“ میں تسلیم کرتا ہے اور جابجا وہ بلوچستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تحریر کرتا ہے جیسے پانی پت کی جنگ کی جنگ کے حوالے سے گنڈا سنگھ اپنی کتاب احمدا شاہ ابدالی کے صفحہ نمبر307 پہ رقمطراز ہے کہ ”احمد شاہ ابدالی نے عسکری تعاون پہ بہادر اور اولعزم بلوچ اتحادی نصیر خان حاکم قلات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے اس کا ملک جانے کی اجازت دی۔ لیکن نصیر خان نے کچھ شرائط رکھیں جن میں کوئٹہ کا ریاست میں شامل ہونا بھی تھا جنہیں فووراً منظور کیا گیا اس کے علاوہ احمد شاہ نے چناب، ملتان جھنگ اور پورا ڈیرہ جات بھی نصیر خان کے حوالے کیا لیکن نصیر خان اور اس کے لشکریوں نے ان علاقوں کو اپنی ریاست میں شامل کرنے سے صاف انکار کیا۔“ نصیر خان اور اس کے حواری اس بات کا قائل تھے کہ بلوچ ریاست فقط بلوچ علاقوں پہ محیط ہو جیسے وہ احمد شاہ ابدالی سے کہتا ہے کہ”بلوچستان کے حدودوہاں تک ہیں جہاں تک بلوچی بولی جاتی ہے“، یعنی وہ نقشہ جس پہ میرعبدالعزیز کرد، ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ، پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ اور اکثردانشور و سیاسی رہنماء متفق ہیں۔اس کے علاوہ گنڈا سنگھ نصیر خان کو حاکم قلات اور احمدشاہ ابدالی کا اتحادی کہتا ہے جو اس جانب دلیل ہے کہ بلوچ ریاست اس دورمیں مکمل آزاد ریاست تھا۔ نصیر خان نے بلوچ قومی ریاست کو ایسی وسعت دی جو آج بھی نصیر خان کی سیاسی بصیرت کی نشاندہی کرتی ہے اوروہ تمام علاقے بلوچ ریاست(ریاست قلات) کی عملداری میں شامل ہوگئے جہاں بولی بولی جاتی ہے۔ان تمام علاقوں کا نقشہ کھینچا جائے تو غالباً 1942ء میں میر عبدالعزیز کرد کی جانب سے پیش کردہ نقشہ بنتا ہے جس پہ اکثر بلوچ مورخین اور سیاسی رہنماء متفق ہیں۔
نصیر کی وفات کے 16سالوں بعد انگریز جاسوس بلوچستان کا رخ کرتے ہیں۔یہ میر محمود خان اول کا دور حکومت ہے جہاں ایک جانب ہنری پوٹینگر اپنی ٹیم کے ساتھ جاسوسی مہم سرکررہا تھا تو دوسری جانب اسی دور میں تالپوروں نے کراچی کے بندر گاہ پہ قبضہ کرکے اسے سندھ میں شامل کرلیا تھا۔بلوچوں کی اس آپسی چپقلش اس قومی ریاست کو جسے نصیر خان نے مربوط خطوط پہ استوار کیا تھا اسے روبہ زوال کرنے کے در پہ تھے۔بلوچستان کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کیونکہ انگریزوں نے پوٹینگر سے قبل سرور نامی کسی فرد کو بلوچستان کے حالات معلوم کرنے روانہ کیا تھا جنہوں نے بلوچوں کی منتشر حکومت یا آپسی عدم اعتماد کی فضا کو ان کے سامنے اجاگر کیا۔انگریزوں کے مقاصد چونکہ عسکری نوعیت کے تھے لہذا اسی لیے انگریزوں نے حقیقت حال معلوم کرنے اپنے فوجیوں کا انتخاب کیا جن میں لیفٹیننٹ ہنری پوٹینگر،کیپٹن کرسٹی اور بعض جگہ کیپٹن گرانٹ کا نام بھی آتا ہے کہ وہ بھی اس مہم میں شامل تھا۔یہ لوگ ممبئی سے روانہ ہوکے سونمیانی پہنچے۔وہ ازبک تاجروں کے بھیس میں تھے اور سائل مکران سے لیکر جہلاوان، سراوان اور نوشکی کے علاقے تک اسی بھیس میں سفر کرتے رہے۔اس سفر کے دوران کے واقعات جس میں انہیں بلوچستان کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئی تھی جو عسکری نوعیت کے تھے، ان واقعات کو پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ اپنی کتاب ”بلوچستان اور برطانوی مورخین“ کے صفحہ 47پہ اس طرح رقم کرتا ہے کہ ”ہم روز نہایت اشتیاق سے ان ممالک کے جغرافیہ اور ماہیت کے متعلق معلومات اندوزی کرتے رہے جن سے ہمارا آئندہ راستہ گزرنا تھا۔“ آنے والے دنوں میں برطانیہ نے انہی جاسوسوں کی فراہم کردہ معلومات کو مدنظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔
اس دور میں حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے پوری قوم انتشار کا شکار نظر آتا ہے وہ قوم جسے نصیر خان نے ایک ہی لڑی میں پرویا۔ایسے حالات میں اغیار کی دست درازی کے تمام راستے کھل چکے تھے اور آہستہ آہستہ انہوں نے بلوچستان کے سیاسی معاملات کے ساتھ ساتھ سماجی معاملات میں زور آزمائی شروع کی۔
خان مہراب خان کی دور حکومت میں انگریز بلوچستان کے راستے کو استعمال کرکے افغانستان میں قدم جمانے کی کوشش کررہی تھی لیکن انہیں اس بات کا خوف تھا کہ بلوچستان میں بلوچوں کی اجازت کے بنا قدم رکھنا ان کی افواج کے لیے خطرے کا باعث ہوگا۔اس ضمن میں 1838ء میں سر الیگزنڈر برنس نے خان مہراب خان سے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کردیا۔لیکن آنے والے دنوں میں انگریزوں کو جس کا خدشہ تھا کہ بلوچستان میں ان کے قافلے محفوظ نہیں بالکل صحیح ثابت ہوئے۔اسی دوران جب انگریزی افواج بولان کے راستے سفر کررہے تھے کہ ان پہ اچانک مری قبائل کے جنگجوؤں نے حملہ کردیا یہ حملہ اس قدر شدید تھا جس نے انگریزوں کے قدم اکھاڑ دیے۔بلوچستان میں انگریزوں کے ان نقصانات کی وجہ سے انہیں پہلی افغان اینگلو جنگ1838ء میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کی اہم وجہ انگریزوں کے خلاف مری بلوچوں کی مزاحمت تھی۔مری بلوچوں کی اس مزاحمت نے جس کی وجہ سے انگریزافغان سرزمین پہ بھی پسپا ہوگئے انہیں قلات کی تسخیر کی جانب اکسا یا کیونکہ اب وہ یہ جان چکے تھے کہ افغان جنگ میں کامیابی کے لیے تسخیر قلات اولین شرط ہے۔لیکن تسخیر قلات کی جو سب سے اہم وجہ بیان کی جاتی ہے وہ برطانیہ کو فرانس، جرمنی اور روس کی جانب سے خطرات تھے کہ کہیں انہیں یہاں قدم جمانے کا موقع نہ مل جائے۔کیونکہ بلوچستان کا جغرافیہ ہی کچھ اس قسم کا ہے جو عسکری حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغان جنگ کے دوران انگریزوں کے قافلوں پہ بلوچ چھاپہ ماروں کے حملے بلوچستان کو اپنے نوآبادیات میں شامل کرناجواز بن گیا ورنہ انہوں نے تو اس کی منصوبہ بندی ہنری پوٹینگر کی مہم دیکھ کر کرلیا تھا۔ اور یوں 1839ء میں انگریزی فوج نے جنرل ولشائر کی سربراہی میں ریاست قلات کے مرکزی شہر پہ حملہ کردیا۔ انگریزوں کے اس حملے کے خلاف حاکم ریاست خان مہراب خان اور اس کے ہمنواؤں نے مزاحمت کی لیکن برطانوی فوج جو جدید اسلحہ سے لیس تھا ان کے سامنے بندباندھنا ممکن نہیں تھا اور یوں ایک خون ریز جنگ کے بعد جس میں خان مہراب خان اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوجاتے ہیں انگریز استعمار قلات پہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔سقوط قلات کے وقت انگریز فوج کے انڈس سیکٹر کا سپہ سالار ہنری پوٹینگر ہی تھا جس نے جنرل ولشائر کو قلات پہ حملہ کرنے کا سندیسہ بھیجا۔ جس سے اس بات کو مزید تقویت پہنچتی ہے کہ بہر صورت انگریزوں کو بلوچستان پہ قبضے کرکے دیگر طاقتوں کا جنوبی ایشیائی خطے تک راستہ روکنا تھا۔
بلوچ خطے کی اہمیت کے بارے اور بھی بہت سارے برطانوی اہلکاروں نے نشاندہی کی تھی جن میں اس وقت کے برطانوی کمشنر سرولیم میری ویدر نے1872ء میں بالائی سندھ کے پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ کرنل فیری کے نام مراسلہ لکھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ”بلوچ ایک ایسے خطے کے مالک ہیں جس کی جغرافیائی اہمیت حکومت برطانیہ کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اس خطے کو برطانوی حکومت اس وقت محفوظ بناسکتی ہے جب یہاں کے مقامی افراد کے ساتھ دوستانہ روابط قائم ہوں۔اگر برطانوی سرکار اپنے اس منصوبے میں کامیاب ہوتا ہے تو دنیا کی دیگر طاقتیں جن میں فرانس، جرمنی اور دیگر بڑی طاقتیں شامل ہیں ان کا راستہ آسانی سے روکا جاسکتا ہے اس کے علاوہ یہ خطہ نہ صرف ہندوستان تک ایک بہترین گزرگاہ ہے بلکہ پشاور اور افغانستان تک ہمارے مفادات اسی خطے سے وابسطہ ہیں۔“
شہید خان مہراب خان کی شہادت 13 نومبر 1839ء کے بعد بلوچ وطن کی دفاع میں بلوچوں نے مختلف ادوار میں جنگیں بھی لڑی۔ حتیٰ کے سقوط قلات کے بعد بہت جلد دوبارہ قلا ت سے انگریزوں کو نکالنے میں بھی کامیابی حاصل ہوئی لیکن یہ کامیابیاں انگریزوں کی مکارانہ پالیسیوں کے آگے بند باندھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس دوران بلوچ خوانین اور انگریزوں کے مابین مختلف معاہدات ہوتے رہے جن میں معاہدہ عدمِ مداخلت1854ء بھی شامل ہے۔اگر سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ایسے تمام معاہدات برائے نام ہوتے ہیں کیونکہ زور آور قوتیں انہی پا لیسیوں پہ عملدار آمد کرتے ہیں جو ان کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوں۔جیسے انگریز استعمار کا بلوچ ریاست کے ساتھ مختلف ادوار میں ہونے والے معاہدات اور بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرنے کے باوجود غیر فطری ریاست پاکستان کا بلوچستان پہ قبضہ کرنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا۔
سقوت قلات کے بعد کوہستان مری، مکران، جہلاوان، سراوان اور رخشان، ڈیرہ بگٹی اور اس سے متصل علاقوں میں تاریخی مزاحمت شروع ہوئی۔جنہوں نے بلوچ جہد آزادی کے لیے ایسی راہیں متعین کیں جو آگے چل کر بلوچ قوم میں جذبہ قومیت اور حب الوطنی کو مزید دوام بخشنے کی وجہ بنی۔بعد کے ادوار میں مغربی بلوچستان میں ہونی والی جدوجہد جہاں مرد وزن انگریز استعمار کے خلاف مسلح ہوتے ہیں۔
ایک مختصر عرصے میں بلوچوں کو انگریزی فوج کے خلاف کامیابیاں حاصل ہوئیں اسی لیے انہوں نے خان نصیر خان دوم کی رہنمائی میں 1840ء میں دوسری مرتبہ قلات پہ حملہ کرکے انگریزوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوا اور قلات کا تسلط واپس حاصل کرلیا۔اور یوں ریاست کا دارلخلافہ شہر ِقلات ایک بار پھر بلوچوں کی دسترس میں آگیا۔لیکن یہ حاکمیت دیرپاء ثابت نہیں ہوئی۔ پر قلات پہ اس کی حکمرانی چندمہینوں تک رہی اور یوں 3نومبر 1840ء کو انگریزوں نے جب انہیں افغانستان سے عسکری مدد پہنچی تو انہوں نے قلات پہ دوبارہ قبضہ کرکے کرنل سٹسی کو وہاں کا پولیٹیکل ایجنٹ مقررکیا۔
انگریزوں نے قلات پہ دوبارہ قبضہ تو کرلیا لیکن ان کے خلاف بلوچستان کے طول وعرض میں وقفے وقفے سے بغاوتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران انگریزوں کی جو سب سے بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے وہ ہے معاہدہ مستونگ۔13 جوالائی 1876ء کے معاہدہ مستونگ نے بلوچ ریاست کی آزادی کو سب سے بڑا دھچکا لگایا۔ اس معاہدے کے بعد انگریز بلوچستان میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور انگریزوں کی یہ حکمت عملی فارورڈ پالیسی کے نام سے مشہور ہوگئی۔معاہدہ مستونگ سے قبل 1870 ء میں معاہد ہ گنڈامک ہوا جس کے تحت بلوچستان کی سرحد سے متصل کئی افغان علاقے حکومت برطانیہ کے ہاتھ آئے۔ان علاقوں کے ساتھ بہت سے بلوچ علاقے جن میں سبی، مری،بگٹی اور کھیتران علاقوں کے ساتھ کوئٹہ پہ مشتمل برطانیہ نے18 نومبر1887ء رمیں ایک قرارداد کے ذریعے نیا صوبہ برٹش بلوچستان کے نام سے قائم کرکے برٹش ہند میں شامل کرلیا۔یوں فارورڈپالیسی کے تحت بلوچ ریاست کی پہلی جغرافیائی تقسیم ممکن ہوئی۔بلوچستان کے ان علاقوں میں مداخلت کے بعد1890ء میں سنڈیمن نے مکران کا رخ کیا اور مکران میں بھی برطانوی فوج کا ایک دستہ میجر میؤر کی سربراہی میں تعینات کیا۔ یوں حکومتِ برطانیہ کی عملی مداخلت مکران تک ممکن ہوگئی اور یوں انگریز پورے خطے کو اپنے استحصال کا شکار بناتے رہے۔
بیسویں صدی جو جدیدسیاسی نظا م کی صدی کہلایا جاتا ہے۔ اس صدی کے پہنچتے پہنچتے سیاسی جماعتوں کی سوچ بلوچ سماج میں بھی پیوست ہوگئی لہذا بلوچ سماج میں پہلی بار 1920ء میں میر عبدالعزیز کرد”ینگ بلوچ“کے نام سے ایک خفیہ تنظیم کا قیام عمل میں لاتا ہے جو 1931ء میں ایک جماعت کا روپ اختیار کرکے انجمن اتحاد بلوچاں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔جو بعد میں قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی شکل میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔اس جماعت نے بلوچ سماج میں کافی پذیرائی حاصل کی جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ جس کے خلاف فرسودہ خیالات کے لوگ متحرک ہوگئے۔اس حوالے سے میر گل خان نصیر اپنی کتاب ”تاریخ بلوچستان“ کے صفحہ نمبر496میں رقمطراز ہے کہ ”قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی سرگرمیاں بہت جلد پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کی نظروں میں کھٹکنے لگیں۔ریاست کا غیر ملکی طبقہ حواسِ باختہ نظر آنے لگا۔ اس حواسِ باختگی کے عالم میں وہ ریاست قلات کے ہر نوجوان کو خواہ وہ ملازم تھا یا طالب علم، مزدور اور زمیندار تھا یا تاجر و مال دار، قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کا ممبر خیال کرتے تھے“۔ پارٹی کی ہر دلعزیزی کی ایک بڑی مثال جو ہمیں تاریخ میں ملتی ہے وہ1947ء کے الیکشن جہاں پابندیوں کے باوجود آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے باون میں سے انتالیس نشستوں پہ پارٹی کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
بلوچ قوم نے اس دوران جدید سیاست کو اپنا تو لیا جس میں عوامی سطح پہ انہیں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں پر بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت پہلی جنگ عظیم کے بعد مزید شدت اختیار کرگئی۔برطانیہ کی اس اہم ترین فوجی چوکی اور وسیع نوآبادیات پر قبضے کے لیے روسی، جرمن اور فرانسیسی خطرہ بڑھ گیا۔اس کے علاوہ معدنی وسائل سے مالا مال یہ خطہ عالمی طاقتوں کے لیے موت و زیست کا مسئلہ بن گیا۔


بلوچستان کی آزادی کے لیے خان قلات کی جناح سے مشاورت:۔


جناح نے کہا کہ آپ وہی کام کررہے ہیں جو مسلم لیگ اور کانگریس کرنا چاہتے ہیں۔مگر ہم میں اور آپ میں فرق یہ ہے کہ ہم سیاسی لیڈر ہیں اور آپ ایک قومی حکمران۔
یہاں جناح کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے خان قلات کو ایک قومی حکمران تسلیم کرلیا تھا جس سے مراد ایک ریاست کا باقائدہ حاکم۔
ایک اور جگہ جناح نے بلوچستان کی اہمیت یوں بیان کیا ہے کہ
آپ کا ملک سیاسی،جغرافیائی اور اقتصادی نقطہ نظر سے نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا میں ایک اہم ترین خطہ ہے۔
جناح کی ان باتوں سے واضح پیغا م ملتا ہے کہ اتنی اہمیت کے حامل خطے کو ہم کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں لہذا بلوچستان کو اپنے قبضے میں لانے کی خواہش جناح کو شروع دن سے ہی رہی ہے۔جس کا اظہار جناح جیسے مکار نے ان الفاظ میں بھی کیا ہے کہ ”میں آپ کو واضح الفاظ میں یہ بتانے والا ہوں کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ تمام اسلامی ممالک،اسلامی اصولوں کے مطابق ایک فیڈریشن کی صورت میں آپس میں متحد ہوجائیں گے۔اس میں سب سے اہم ترین حیثیت جس قوم اور ملک کو حاصل ہوگی وہ بلوچ اور بلوچستان ہے۔“
اس سوچ کو مزید پروان چڑھانے کے لیے کہتا ہے کہ آپ مسلم لیگ کو بلوچستان میں منظم کریں۔
آزاد بلوچ ریاست کو مسلم لیگ کی کیا ضرورت پیش آنے والی تھی۔یہ جناح جیسے مکار کی وہی پالیسی تھی جس کے لیے برطانوی سرکار اسے شہہ دے رہی تھی جیسے4 اگست1947ء کو نمائندہ تاج برطانیہ کی زیر صدارت نئی دہلی میں کانفرنس ہوئی۔اس کانفرنس میں وائسرائے ہند کے قانونی مشیر لارڈ ازمے، خان قلات، لیاقت علی خان، محمدعلی جناح، وزیر اعظم قلات محمداسلم خان اور قانونی مشیر سلطان احمد بھی شریک تھے۔اس کانفرنس کے نتائج گیارہ اگست 1947ء وائس رائے ہاوس نئی دہلی سے نشر ہوئے۔جس میں کہا گیا کہ”حکومت پاکستان،ریاست قلات کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرتی ہے، جس کے تعلقات حکومت برطانیہ سے رہے ہیں اور اس کی حیثیت باقی ہندوستانی ریاستوں سے مختلف ہے۔“
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس قرادر داد کے دیگر شقوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برطانیہ پاکستان کو اس سارے خطے کا چوکیدار مقرر کرنے والا تھا۔ جیسے اس قرارداد میں یہ لکھا ہے کہ اس سلسلے میں قانونی مشاورت حاصل کیا جائے گا کہ آیا حکومت برطانیہ اور حکومت قلات کے درمیان مستجار علاقوں کے متعلق کیے ہوئے اقرار نامے پاکستان کو وراثتاً منتقل کیے جاسکتے ہیں کہ نہیں؟ حالانکہ برطانوی سرکار کی ایکٹ آزادی کے دفعہ 7کی رو سے تمام معاہدات از خود ختم ہوجاتے ہیں اور وہ علاقے جن پہ قبضہ کیا گیا تھا انہیں ان کی سابقہ حیثیت میں بحال کیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی اس غیر قانونی عمل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے جو برطانوی حکومت کے لیے سیاہ دھبہ ہے۔اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ برطانیہ نے بلوچستان پہ قبضہ نہیں بلکہ معاہدات کے ذریعے بعض علاقوں کو مستجار لیا تھا۔
اس سے یقیناً اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ برطانوی سرکار نہ صرف ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہا بلکہ افغانستان کو تقسیم اور بلوچ قوم اور وطن کو تقسیم کرنے کے ساتھ پاکستان کی غلامی میں دینے کے اسباب بھی مہیاء کرتا رہا۔ جس کی وجہ سے حکومت ِ برطانیہ کی جانب سے گیارہ (11)اگست اور بلوچستان کی جانب سے 12 اگست کا اعلانِ آزادی فقط سات ماہ اور پندرہ دن تک رہا۔ اور بلوچ ریاست ایک بار پھر اغیار کے قبضے میں چلاگیا جس کے خلاف بلوچوں نے روز اول سے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ یہجنگ ابھی جاری ہے اور بلوچوں کی اس جنگ میں شمولیت سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس جنگ کو حتمی شکل دے کر ہی دم لینگے یعنی حصول آزادی
۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں